اخبرنا قتيبة، قال: حدثنا الليث، عن عقيل، عن الزهري، عن علي بن حسين، ان الحسين بن علي حدثه، عن علي بن ابي طالب، ان النبي صلى الله عليه وسلم طرقه وفاطمة , فقال:" الا تصلون" , قلت: يا رسول الله , إنما انفسنا بيد الله فإذا شاء ان يبعثها بعثها , فانصرف رسول الله صلى الله عليه وسلم حين قلت له ذلك، ثم سمعته وهو مدبر يضرب فخذه , ويقول: وكان الإنسان اكثر شيء جدلا سورة الكهف آية 54. أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قال: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ، أَنَّ الْحُسَيْنَ بْنَ عَلِيّ حَدَّثَهُ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَرَقَهُ وَفَاطِمَةَ , فَقَالَ:" أَلَا تُصَلُّونَ" , قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنَّمَا أَنْفُسُنَا بِيَدِ اللَّهِ فَإِذَا شَاءَ أَنْ يَبْعَثَهَا بَعَثَهَا , فَانْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ قُلْتُ لَهُ ذَلِكَ، ثُمَّ سَمِعْتُهُ وَهُوَ مُدْبِرٌ يَضْرِبُ فَخِذَهُ , وَيَقُولُ: وَكَانَ الإِنْسَانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلا سورة الكهف آية 54.
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اور فاطمہ کو (دروازہ کھٹکھٹا کر) بیدار کیا، اور فرمایا: ”کیا تم نماز نہیں پڑھو گے؟“ تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہماری جانیں تو اللہ کے ہاتھ میں ہیں، جب وہ انہیں اٹھانا چاہے گا اٹھا دے گا، جب میں نے آپ سے یہ کہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پلٹ پڑے، پھر میں نے آپ کو سنا، آپ پیٹھ پھیر کر جا رہے تھے اور اپنی ران پر (ہاتھ) مار کر فرما رہے تھے: «وكان الإنسان أكثر شىء جدلا»”انسان بہت حجتی ہے“۔
ألا تصلون قال علي فقلت يا رسول الله إنما أنفسنا بيد الله فإذا شاء أن يبعثنا بعثنا فانصرف رسول الله حين قلت ذلك ولم يرجع إلي شيئا ثم سمعته وهو مدبر يضرب فخذه ويقول وكان الإنسان أكثر شيء جدلا
ألا تصلون فقال علي فقلت يا رسول الله إنما أنفسنا بيد الله فإذا شاء أن يبعثنا بعثنا فانصرف رسول الله حين قال له ذلك ولم يرجع إليه شيئا ثم سمعه وهو مدبر يضرب فخذه وهو يقول وكان الإنسان أكثر شيء جدلا
ألا تصليان فقلت يا رسول الله أنفسنا بيد الله فإذا شاء أن يبعثنا بعثنا فانصرف حين قلنا ذلك ولم يرجع إلي شيئا ثم سمعته وهو مول يضرب فخذه وهو يقول وكان الإنسان أكثر شيء جدلا
ألا تصلون فقلت يا رسول الله إنما أنفسنا بيد الله فإذا شاء أن يبعثنا بعثنا فانصرف رسول الله حين قلت له ذلك ثم سمعته وهو مدبر يضرب فخذه ويقول وكان الإنسان أكثر شيء جدلا
ألا تصلون قلت يا رسول الله إنما أنفسنا بيد الله فإذا شاء أن يبعثها بعثها فانصرف رسول الله حين قلت له ذلك ثم سمعته وهو مدبر يضرب فخذه ويقول وكان الإنسان أكثر شيء جدلا
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1612
´قیام اللیل (تہجد) کی ترغیب کا بیان۔` علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اور فاطمہ کو (دروازہ کھٹکھٹا کر) بیدار کیا، اور فرمایا: ”کیا تم نماز نہیں پڑھو گے؟“ تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہماری جانیں تو اللہ کے ہاتھ میں ہیں، جب وہ انہیں اٹھانا چاہے گا اٹھا دے گا، جب میں نے آپ سے یہ کہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پلٹ پڑے، پھر میں نے آپ کو سنا، آپ پیٹھ پھیر کر جا رہے تھے اور اپنی ران پر (ہاتھ) مار کر فرما رہے تھے: «وكان الإنسان أكثر شىء جدلا»”انسان بہت حجتی ہے۔“[سنن نسائي/كتاب قيام الليل وتطوع النهار/حدیث: 1612]
1612۔ اردو حاشیہ: ➊ ”ہماری روحیں“ ان الفاظ کی بنیاد اس تصور پر ہے کہ نیند میں روح کامل طور پر انسان سے نکل کر اللہ تعالیٰ کے قبضے میں چلی جاتی ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ہے: (اللہ یتوفی الانفس حین موتھا والتی لم تمت فی منامھا)(الزمر39: 42) لہٰذا روح کی واپسی ہی پر جاگ آئے گی۔ ➋ حضرت علی اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہما بھی نوجوان تھے۔ اس عمر میں رات کو نماز تہجد کے لیے جاگنا بہت مشکل ہوتا ہے، اس لیے کبھی ان سے سستی ہو جاتی ہو گی۔ معلوم ہوتا ہے یہ ان کی شادی کے ابتدائی دور کی بات ہے۔ ➌ ”کٹ حجت ہے“ کیونکہ اختیاری مسئلے میں تقدیر کو پیش کرنا کٹ حجتی ہے۔ تقدیر کا حوالہ وہاں دیا جائے گا جہاں اختیار نہ ہو، مثلاً: زندگی اور مت، صحت اور بیماری وغیرہ۔ نماز پڑھنا تو اختیاری مسئلہ ہے۔ اس میں تقدیر کو عذر کے طور پر پیش کرنا صحیح نہیں کیونکہ ان معاملات میں امرونہی مدار ہے، نہ کہ تقدیر۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 1612