اخبرنا عمرو بن سواد بن الاسود، قال: انبانا ابن وهب، قال: انبانا ابن جريج، ان ابا الزبير اخبره، انه سمع جابر بن عبد الله، يقول:" كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا خطب يستند إلى جذع نخلة من سواري المسجد، فلما صنع المنبر واستوى عليه , اضطربت تلك السارية كحنين الناقة حتى سمعها اهل المسجد، حتى نزل إليها رسول الله صلى الله عليه وسلم فاعتنقها فسكتت". أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ سَوَّادِ بْنِ الْأَسْوَدِ، قَالَ: أَنْبَأَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قال: أَنْبَأَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، أَنَّ أَبَا الزُّبَيْرِ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا خَطَبَ يَسْتَنِدُ إِلَى جِذْعِ نَخْلَةٍ مِنْ سَوَارِي الْمَسْجِدِ، فَلَمَّا صُنِعَ الْمِنْبَرُ وَاسْتَوَى عَلَيْهِ , اضْطَرَبَتْ تِلْكَ السَّارِيَةُ كَحَنِينِ النَّاقَةِ حَتَّى سَمِعَهَا أَهْلُ الْمَسْجِدِ، حَتَّى نَزَلَ إِلَيْهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاعْتَنَقَهَا فَسَكَتَتْ".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب خطبہ دیتے تو مسجد کے ستونوں میں سے کھجور کے ایک تنا سے آپ ٹیک لگاتے تھے، پھر جب منبر بنایا گیا، اور آپ اس پر کھڑے ہوئے تو وہ ستون (جس سے آپ سہارا لیتے تھے) بیقرار ہو کر رونے لگا جس طرح اونٹنی روتی ہے، یہاں تک کہ اسے مسجد والوں نے بھی سنا، یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اتر کر اس کے پاس گئے، اور اسے گلے سے لگایا تو وہ چپ ہوا۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1397
´خطبہ کے دوران امام کے کھڑے ہونے کی جگہ کا بیان۔` جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب خطبہ دیتے تو مسجد کے ستونوں میں سے کھجور کے ایک تنا سے آپ ٹیک لگاتے تھے، پھر جب منبر بنایا گیا، اور آپ اس پر کھڑے ہوئے تو وہ ستون (جس سے آپ سہارا لیتے تھے) بیقرار ہو کر رونے لگا جس طرح اونٹنی روتی ہے، یہاں تک کہ اسے مسجد والوں نے بھی سنا، یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اتر کر اس کے پاس گئے، اور اسے گلے سے لگایا تو وہ چپ ہوا۔ [سنن نسائي/كتاب الجمعة/حدیث: 1397]
1397۔ اردو حاشیہ: ➊ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں مسجد نبوی کے تمام ستون کھجور کے تنے کے تھے۔ مذکورہ تنے پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم ٹیک لگاتے تھے، اس لیے جب آپ منبر پر تشریف فرما ہوئے تو وہ غم جدائی میں رونے لگا۔ ➋ ”رونے لگا“ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ظاہر معجزہ تھا کہ خشک تنے سے قریب الولادت اونٹنی کی آواز جیسی آواز آنے لگی۔ سب موجود لوگوں نے سنا، پھر آپ کے اس کے ساتھ پیار کرنے پر اس کا چپ ہونا دوسرا معجزہ ہے۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔ دیگر روایات میں صراحت ہے کہ وہ تنا آپ کے فراق میں رویا تھا۔ ➌ حدیث سے معلوم ہوا کہ امام کو خطبۂ جمعہ کے دوران میں منبر پر کھڑا ہونا چاہیے کیونکہ آپ کی آخری سنت یہی ہے۔ باب کا مقصد بھی یہی ہے۔ ➍ منبر پر کھڑا ہونے میں امام کی فضیلت ہے، نیز وہ سب کو نظر آئے گا۔ سب اس کی آواز سنیں گے۔ دو خطبوں کے درمیان بیٹھنے میں سہولت ہو گی۔ ➎ امام اپنے پاؤں منبر پر رکھے حضرت عمر رضی اللہ عنہ منبر کی پہلی سیڑھی پر، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ دوسری پر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تیسری پر پاؤں رکھتے تھے۔ بعد میں احتراماً تیسری اور دوسری سیڑھی کو چھوڑ دیا گیا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 1397