اخبرنا الحارث بن مسكين قراءة عليه وانا اسمع، عن ابن وهب، عن يونس، والليث، عن ابن شهاب، عن حبيب مولى عروة، عن بدية، وكان الليث، يقول: ندبة مولاة ميمونة، عن ميمونة، قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم" يباشر المراة من نسائه وهي حائض إذا كان عليها إزار يبلغ انصاف الفخذين والركبتين". في حديث الليث تحتجز به. أَخْبَرَنَا الْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ، عَنْ ابْنِ وَهْبٍ، عَنْ يُونُسَ، وَاللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ حَبِيبٍ مَوْلَى عُرْوَةَ، عَنْ بُدَيَّةَ، وَكَانَ اللَّيْثُ، يَقُولُ: نَدَبَةَ مَوْلَاةِ مَيْمُونَةَ، عَنْ مَيْمُونَةَ، قالت: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يُبَاشِرُ الْمَرْأَةَ مِنْ نِسَائِهِ وَهِيَ حَائِضٌ إِذَا كَانَ عَلَيْهَا إِزَارٌ يَبْلُغُ أَنْصَافَ الْفَخِذَيْنِ وَالرُّكْبَتَيْنِ". فِي حَدِيثِ اللَّيْثِ تَحْتَجِزُ بِهِ.
ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی حائضہ بیوی سے چمٹتے جب وہ تہبند باندھے ہوتی جو کبھی اس کے دونوں رانوں کے نصف تک پہنچتا، اور کبھی گھٹنوں تک۔ لیث کی روایت میں ہے: وہ اسے اپنی کمر پر باندھے ہوتی۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 288 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، انظر الحديث السابق (288) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 323
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 267
´حائضہ عورت سے جماع کے سوا آدمی سب کچھ کر سکتا ہے۔` ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں سے حیض کی حالت میں مباشرت (اختلاط و مساس) کرتے تھے جب ان کے اوپر نصف رانوں تک یا دونوں گھٹنوں تک تہبند ہوتا جس سے وہ آڑ کئے ہوتیں۔ [سنن ابي داود/كتاب الطهارة /حدیث: 267]
267۔ اردو حاشیہ: زوجین کے یہ مسائل کسی عام عالم کے لیے اس انداز میں بیان کرنا بہت مشکل ہے، مگر چونکہ یہ دین طہارت اور اللہ کی حدود کے مسائل ہیں، اسی لیے ازواج مطہرات نے بھی بیان فرمائے ہیں ورنہ ان کی حیا و شرم بے مثل و بے مثال تھی (رضی اللہ عنہن) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کثرت ازدواج کی حکمت بھی یہی تھی کہ زوجین کے مابین کے مسائل شرعی لحاظ سے امت کے سامنے آ جائیں۔
مسئلہ: ایام حیض میں بوس و کنار یقیناًً جائز ہے، مگر دیکھنا یہ ہے کہ ایسے جوڑے کو اپنے اوپر کس حد تک ضبط ہے اگر اندیشہ ہو کہ ضبط قائم نہ رہے گا تو ازحد احتیاط کرنی چاہیے کہ کہیں حرام میں واقع نہ ہو جائیں۔ نيز ديكهيے حديث: [258]
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 267