حدثنا محمود بن غيلان , حدثنا ابو اسامة , عن بريد , عن جده ابي بردة , عن ابي موسى , عن النبي صلى الله عليه وسلم , قال:" إذا مر احدكم في مسجدنا او في سوقنا ومعه نبل , فليمسك على نصالها بكفه , ان تصيب احدا من المسلمين بشيء , او فليقبض على نصالها". حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ , حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ , عَنْ بُرَيْدٍ , عَنْ جَدِّهِ أَبِي بُرْدَةَ , عَنْ أَبِي مُوسَى , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:" إِذَا مَرَّ أَحَدُكُمْ فِي مَسْجِدِنَا أَوْ فِي سُوقِنَا وَمَعَهُ نَبْلٌ , فَلْيُمْسِكْ عَلَى نِصَالِهَا بِكَفِّهِ , أَنْ تُصِيبَ أَحَدًا مِنَ الْمُسْلِمِينَ بِشَيْءٍ , أَوْ فَلْيَقْبِضْ عَلَى نِصَالِهَا".
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی شخص ہماری مسجد یا بازار میں سے ہو کر گزرے، اور اس کے ساتھ تیر ہو تو اس کی پیکان اپنی ہتھیلی سے پکڑے رہے تاکہ ایسا نہ ہو کہ کسی مسلمان کو اس کی نوک لگ جائے، (اور وہ زخمی ہو)، یا چاہیئے کہ وہ تیر کی پیکان اپنی مٹھی میں دبائے رہے“۔
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2587
´تیر لے کر مسجد میں جانے کا بیان۔` ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب کوئی شخص ہماری مسجد یا ہمارے بازار سے گزرے اور اس کے پاس تیر ہو تو اس کی نوک کو پکڑ لے“ یا فرمایا: ”مٹھی میں دبائے رہے“، یا یوں کہا کہ: ”اسے اپنی مٹھی سے دبائے رہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ مسلمانوں میں سے کسی کو لگ جائے۔“[سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2587]
فوائد ومسائل: 1۔ صدقہ صرف مال کا نہیں ہوتا۔ بلکہ ہر مفید چیز صدقہ کی جا سکتی ہے۔ تیر یا جہاد میں کام آنے والا اسلحہ بھی بطور صدقہ تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
2۔ تیز دھاردار اور دیگر اسلحہ جات کی نقل وحمل میں انتہائی احتیاط کی ضرورت ہے۔ ایسا نہ ہو کہ غفلت اور غلطی سے کسی مسلمان کو لگ جائے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2587