حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة , حدثنا ابو اسامة , عن هشام بن عروة , عن ابيه , عن عائشة , قالت: قدم ناس من الاعراب على النبي صلى الله عليه وسلم , فقالوا: اتقبلون صبيانكم؟ قالوا: نعم , فقالوا: لكنا والله ما نقبل , فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" واملك ان كان الله قد نزع منكم الرحمة؟". حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ , عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: قَدِمَ نَاسٌ مِنْ الْأَعْرَابِ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالُوا: أَتُقَبِّلُونَ صِبْيَانَكُمْ؟ قَالُوا: نَعَمْ , فَقَالُوا: لَكِنَّا وَاللَّهِ مَا نُقَبِّلُ , فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" وَأَمْلِكُ أَنْ كَانَ اللَّهُ قَدْ نَزَعَ مِنْكُمُ الرَّحْمَةَ؟".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ کچھ اعرابی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور کہا: کیا آپ لوگ اپنے بچوں کا بوسہ لیتے ہیں؟ لوگوں نے کہا: ہاں، تو ان اعرابیوں (خانہ بدوشوں) نے کہا: لیکن ہم تو اللہ کی قسم! (اپنے بچوں کا) بوسہ نہیں لیتے، (یہ سن کر) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے کیا اختیار ہے جب کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے دلوں سے رحمت اور شفقت نکال دی ہے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الفضائل 15 (2317)، (تحفة الأشراف: 16822)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الأدب 17 (5993)، مسند احمد (6/70) (صحیح)»
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3665
´باپ کو اپنے بچوں خاص کر بیٹیوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا چاہئے۔` ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ کچھ اعرابی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور کہا: کیا آپ لوگ اپنے بچوں کا بوسہ لیتے ہیں؟ لوگوں نے کہا: ہاں، تو ان اعرابیوں (خانہ بدوشوں) نے کہا: لیکن ہم تو اللہ کی قسم! (اپنے بچوں کا) بوسہ نہیں لیتے، (یہ سن کر) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے کیا اختیار ہے جب کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے دلوں سے رحمت اور شفقت نکال دی ہے۔“[سنن ابن ماجه/كتاب الأدب/حدیث: 3665]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) اپنے بچوں سے پیار کرنا شفقت و محبت کی علامت ہے۔
(2) دل اللہ کے قبضے میں ہیں۔ نبی ﷺ وعظ و نصیحت کرتے تھے اور حق کو واضح کر کے بیان فرماتے تھے۔ ہدایت دینا اللہ کا کام ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 3665