عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک بکری ہدیہ کے طور پر بھیجی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اسے کھانے لگے، اس پر ایک اعرابی (دیہاتی) نے کہا: بیٹھنے کا یہ کون سا انداز ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک مہربان و شفیق بندہ بنایا ہے، ناکہ مغرور اور عناد رکھنے والا“۱؎۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3263
´ٹیک لگا کر کھانا کھانے کا بیان۔` عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک بکری ہدیہ کے طور پر بھیجی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اسے کھانے لگے، اس پر ایک اعرابی (دیہاتی) نے کہا: بیٹھنے کا یہ کون سا انداز ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک مہربان و شفیق بندہ بنایا ہے، ناکہ مغرور اور عناد رکھنے والا“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأطعمة/حدیث: 3263]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) محمدفواد عبدالباقی رحمہ اللہ نے اتکاء (ٹیک لگانے) کی مختلف صورتیں بیان کی ہیں: ۔
(الف) چار زانو (چوکڑی مار کر) بیٹھنا۔
(ب) اچھی طرح کھل کر بیٹھنا۔
(ج) پیٹھ کی چیز (دیوار وغیرہ) سے لگا کر بیٹھنا۔
(د) ایک ہاتھ زمین پر رکھ کر (اس پر سہارا لےکر) بیٹھنا۔ عام طور پر اس لفظ سے تیسرا مفہوم مراد لیا جاتا ہے۔
(2) گھٹنوں کے بل بیٹھنے سےمراد تشہد کی طرح بیٹھنا یا اکڑوں بیٹھنا ہے یعنی پنڈلیاں کھڑى کرکے پاؤں کے پورے تلوے زمین پر لگا کر ان پر بیٹھنا۔
(3) تکبر کی ہر صورت مذموم ہے۔ اور ہرکام میں تواضع قابل تعریف ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 3263