عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قتل کے مسئلہ میں اہل ایمان سب سے زیادہ پاکیزہ اور بہتر ہیں“۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 9441)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الجہاد 120 (2666)، مسند احمد (1/393) (ضعیف)» (ہشیم بن بشیر اور شباک دونوں مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، نیز سند میں اضطراب ہے ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 1232)
وضاحت: ۱؎: اس لئے کہ وہ ناحق اور بے جا قتل نہیں کرتے، اور وہ انسان ہی نہیں بلکہ جانور کو بھی بری طرح تکلیف دے کر نہیں مارتے، اور وہ تیز چھری سے اللہ تعالیٰ کا نام لے کر ذبح کرتے ہیں۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف سنن أبي داود (2666) مغيرة و إبراهيم النخعي عنعنا وانظر الحديث الآتي (2682) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 475
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2682
´قاتلوں میں اہل ایمان کے سب سے بہتر ہونے کا بیان۔` عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قتل کے مسئلہ میں اہل ایمان سب سے پاکیزہ لوگ ہیں“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الديات/حدیث: 2682]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: مذکورہ دونوں روایتیں اکثر محققین کے نزدیک ضعیف ہیں، تاہم صحیح مسلم میں اسی مفہوم کی روایت موجود ہے جس میں رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”جب تم قتل کرو تو اچھے طریقے سے قتل کرو اور جب تم ذبح کرو تو اچھے طریقے سے ذبح کرو۔ آدمی کو چاہیے کہ اپنی چھری تیز کرے، اور ذبح ہوتے والے جانور کو راحت پہنچائے (ممکن حد تک کم سے کم تکلیف پہنچائے۔“ )(صحیح مسلم، الصید والذبائج، باب الأمر بأحسان الذبح والقتل، وتحدید الشفرۃ، حدیث: 1955، وسنن ابن ماجة، حدیث: 3170)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2682