حدثنا مسدد , حدثنا حماد بن زيد , ح وحدثنا احمد بن منيع , عن عباد بن عباد وهذا لفظه وهو اتم , عن واصل , عن يحيى بن عقيل ,عن يحيى بن يعمر , عن ابي ذر , عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" يصبح على كل سلامى من ابن آدم صدقة تسليمه على من لقي صدقة , وامره بالمعروف صدقة , ونهيه عن المنكر صدقة , وإماطته الاذى عن الطريق صدقة , وبضعته اهله صدقة , قالوا: يا رسول الله , ياتي شهوة وتكون له صدقة , قال: ارايت لو وضعها في غير حقها اكان ياثم؟ , قال: ويجزئ من ذلك كله ركعتان من الضحى" , قال ابو داود: لم يذكر حماد الامر والنهي. حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ , حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ , ح وَحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ , عَنْ عَبَّادِ بْنِ عَبَّادٍ وَهَذَا لَفْظُهُ وَهُوَ أَتَمُّ , عَنْ وَاصِلٍ , عَنْ يَحْيَى بْنِ عُقَيْلٍ ,عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ , عَنْ أَبِي ذَرٍّ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" يُصْبِحُ عَلَى كُلِّ سُلَامَى مِنَ ابْنِ آدَمَ صَدَقَةٌ تَسْلِيمُهُ عَلَى مَنْ لَقِيَ صَدَقَةٌ , وَأَمْرُهُ بِالْمَعْرُوفِ صَدَقَةٌ , وَنَهْيُهُ عَنِ الْمُنْكَرِ صَدَقَةٌ , وَإِمَاطَتُهُ الْأَذَى عَنِ الطَّرِيقِ صَدَقَةٌ , وَبُضْعَتُهُ أَهْلَهُ صَدَقَةٌ , قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ , يَأْتِي شَهْوَةً وَتَكُونُ لَهُ صَدَقَةٌ , قَالَ: أَرَأَيْتَ لَوْ وَضَعَهَا فِي غَيْرِ حَقِّهَا أَكَانَ يَأْثَمُ؟ , قَالَ: وَيُجْزِئُ مِنْ ذَلِكَ كُلِّهِ رَكْعَتَانِ مِنَ الضُّحَى" , قَالَ أَبُو دَاوُدَ: لَمْ يَذْكُرْ حَمَّادٌ الْأَمْرَ وَالنَّهْيَ.
ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابن آدم کے ہر جوڑ پر صبح ہوتے ہی صدقہ عائد ہو جاتا ہے، تو اس کا اپنے ملاقاتی سے سلام کر لینا بھی صدقہ ہے، اس کا معروف (اچھی بات) کا حکم کرنا بھی صدقہ ہے اور منکر (بری بات) سے روکنا بھی صدقہ ہے، اس کا راستہ سے تکلیف دہ چیز ہٹانا بھی صدقہ ہے، اور اس کا اپنی بیوی سے ہمبستری بھی صدقہ ہے“ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! وہ تو اس سے اپنی شہوت پوری کرتا ہے، پھر بھی صدقہ ہو گا؟ (یعنی اس پر اسے ثواب کیونکر ہو گا) تو آپ نے فرمایا: ”کیا خیال ہے تمہارا اگر وہ اپنی خواہش (بیوی کے بجائے) کسی اور کے ساتھ پوری کرتا تو گنہگار ہوتا یا نہیں؟“(جب وہ غلط کاری کرنے پر گنہگار ہوتا تو صحیح جگہ استعمال کرنے پر اسے ثواب بھی ہو گا) اس کے بعد آپ نے فرمایا: اشراق کی دو رکعتیں ان تمام کی طرف سے کافی ہو جائیں گی (یعنی صدقہ بن جائیں گی)۔ ابوداؤد کہتے ہیں: حماد نے اپنی روایت میں امر و نہی (کے صدقہ ہونے) کا ذکر نہیں کیا۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المسافرین 13 (720)، (تحفة الأشراف: 11928)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/167، 178) (صحیح)»
Narrated Abu Dharr: The Prophet ﷺ said: In the morning alms are due from every bone in man's fingers and toes. Salutation to everyone he meets is alms; enjoining good is alms; forbidding what is disreputable is alms; removing what is harmful from the road is alms; having sexual intercourse with his wife is alms. The people asked: He fulfils his desire, Messenger of Allah; is it alms? He replied: Tell me if he fulfilled his desire where he had no right, would he commit a sin ? He then said: Two rak'ahs which one prays in the forenoon serve instead of all that. Abu Dawud said: Hammad did not mention enjoining good and forbidding what is disreputable.
USC-MSA web (English) Reference: Book 42 , Number 5223
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح انظر الحديث السابق (1285)
يصبح على كل سلامى من أحدكم صدقة كل تسبيحة صدقة كل تحميدة صدقة كل تهليلة صدقة كل تكبيرة صدقة أمر بالمعروف صدقة نهي عن المنكر صدقة يجزئ من ذلك ركعتان يركعهما من الضحى
يصبح على كل سلامى من ابن آدم صدقة تسليمه على من لقي صدقة أمره بالمعروف صدقة نهيه عن المنكر صدقة إماطته الأذى عن الطريق صدقة بضعة أهله صدقة يجزئ من ذلك كله ركعتان من الضحى
يصبح على كل سلامى من ابن آدم صدقة تسليمه على من لقي صدقة أمره بالمعروف صدقة نهيه عن المنكر صدقة إماطته الأذى عن الطريق صدقة بضعته أهله صدقة أرأيت لو وضعها في غير حقها أكان يأثم يجزئ من ذلك كله ركعتان من الضحى
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1285
´نماز الضحیٰ (چاشت کی نماز) کا بیان۔` ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابن آدم کے ہر جوڑ پر صبح ہوتے ہی (بطور شکرانے کے) ایک صدقہ ہوتا ہے، اب اگر وہ کسی ملنے والے کو سلام کرے تو یہ ایک صدقہ ہے، کسی کو بھلائی کا حکم دے تو یہ بھی صدقہ ہے، برائی سے روکے یہ بھی صدقہ ہے، راستے سے کسی تکلیف دہ چیز کو ہٹا دے تو یہ بھی صدقہ ہے، اپنی بیوی سے صحبت کرے تو یہ بھی صدقہ ہے البتہ ان سب کے بجائے اگر دو رکعت نماز چاشت کے وقت پڑھ لے تو یہ ان سب کی طرف سے کافی ہے ۱؎۔“ ابوداؤد کہتے ہیں: عباد کی روایت زیادہ کامل ہے اور مسدد نے امر و نہی کا ذکر نہیں کیا ہے، ان کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ فلاں اور فلاں چیز بھی صدقہ ہے اور ابن منیع کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ لوگوں نے پوچھا: اللہ کے رسول! ہم میں سے ایک شخص اپنی (بیوی سے) شہوت پوری کرتا ہے تو یہ بھی اس کے لیے صدقہ ہے؟ آپ نے فرمایا: ”(کیوں نہیں) اگر وہ کسی حرام جگہ میں شہوت پوری کرتا تو کیا وہ گنہگار نہ ہوتا ۲؎؟۔“[سنن ابي داود/كتاب التطوع /حدیث: 1285]
1285۔ اردو حاشیہ: سورج طلوع ہوتے ہی جو نماز پڑھی جائے وہ ”اشراق“ اور جو سورج کے قدرے بلند ہونے پر پڑھی جائے ”ضحیٰ“(چاشت) کہلاتی ہے، حقیقت میں یہ ایک ہی نماز ہے، اس کی کم از کم دو اور زیادہ سے زیادہ آٹھ رکعات ہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1285