سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اپنے بچے یا اپنے غلام کا نام یسار، رباح، نجیح اور افلح ہرگز نہ رکھو، اس لیے کہ تم پوچھو گے: کیا وہاں ہے وہ؟ تو جواب دینے والا کہے گا: نہیں (تو تم اسے بدفالی سمجھ کر اچھا نہ سمجھو گے)(سمرہ نے کہا) یہ تو بس چار ہیں اور تم اس سے زیادہ مجھ سے نہ نقل کرنا۔
Samurah bin Jundub reported the Messenger of Allah ﷺ as saying: Do not call your servant Yasar (wealth), Rabah (profit), Nijih (prosperous) and Aflah (successful), for you may ask; Is he there? And someone says: No. Samurah said: These are four (names), so do not attribute more to me.
USC-MSA web (English) Reference: Book 42 , Number 4940
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3730
´ناپسندیدہ اور برے ناموں کا بیان۔` سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اپنے غلاموں کے چار نام رکھنے سے منع فرمایا ہے: ” «افلح»، «نافع»، «رباح» اور «یسار» ۔“[سنن ابن ماجه/كتاب الأدب/حدیث: 3730]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: ایک حدیث میں اس ممانعت کی یہ حکمت بیان کی گئی ہے کیونکہ تو کہے گا: کیا وہ یہاں موجود ہے؟ وہ نہیں ہو گا تو (جواب دینے والا) کہے گا نہیں۔ (صحیح مسلم) مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی پوچھے کہ گھر میں نافع ہے اور جواب میں کہا جائے کہ موجود نہیں۔ گویا آپ نے یہ کہا کہ گھر میں فائدہ دینے والا کوئی شخص موجود نہیں، سب نکمے ہیں۔ اگرچہ متکلم کا مقصد یہ نہیں ہو گا، تاہم ظاہری طور پر ایک نامناسب بات بنتی ہے، لہذا ایسے نام رکھنا مکروہ ہے لیکن حرام نہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 3730
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2836
´ناپسندیدہ ناموں کا بیان۔` سمرہ بن جندب رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اپنے غلام کا نام رباح، افلح، یسار اور نجیح نہ رکھو (کیونکہ) پوچھا جائے کہ کیا وہ یہاں ہے؟ تو کہا جائے گا: نہیں“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الأدب/حدیث: 2836]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: (رباح) فائدہ دینے والا (افلح) فلاح والا (یسار) آسانی (نجیح) کامیاب رہنے والا، ان ناموں کے رکھنے سے اس لیے منع کیا گیا کیونکہ اگر کسی سے پوچھا جائے: کیا ”افلح“ یہاں ہے اورجواب میں کہا جائے کہ نہیں تولوگ اسے بدفالی سمجھ کر اچھا نہ سمجھیں گے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 2836