ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن بن علی رضی اللہ عنہما کو فرمایا: ”میرا یہ بیٹا سردار ہے اور مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے میری امت کے دو گروہوں میں صلح کرائے گا“۔ حماد کی روایت میں ہے: ”شاید اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں میں صلح کرائے گا ۱؎“۔
وضاحت: ۱؎: یہ پیشین گوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس طرح سچ ثابت ہوئی کہ حسن رضی اللہ عنہ نے معاویہ رضی اللہ عنہ سے صلح کر لی اور ایک عظیم فتنہ کو ختم کر دیا یہ سال اتحاد ملت کا سال تھا۔
Narrated Abu Bakrah: The Messenger of Allah ﷺ said to al-Hasan ibn Ali. This son of mine is a Sayyid (chief), and I hope Allah may reconcile two parties of my community by means of him. Hammad's version has: And perhaps Allah may reconcile two large parties of Muslims by means of him.
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4645
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3773
´حسن و حسین رضی الله عنہما کے مناقب کا بیان` ابوبکرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر چڑھ کر فرمایا: ”میرا یہ بیٹا سردار ہے، اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ دو بڑے گروہوں میں صلح کرائے گا“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3773]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: یعنی میرا یہ نواسہ مسلمانوں کے دو گروہوں کے درمیان صلح کا سبب بنے گا، چنانچہ خلافت کے مسئلہ کو لے کر جب مسلمانوں کے دو گروہ ہو گئے، ایک گروہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ اور دوسرا حسن رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا، تو حسن رضی اللہ عنہ نے خلافت سے دستبرداری کا اعلان کر کے مسلمانوں کو قتل و خونریزی سے بچا کر اس امت پر بڑا احسان کیا اور یہ ان کا بہت بڑا کار نامہ ہے (جَزَاہُ اللہُ عَنِ الْمُسْلِمِیْنَ خَیْرَ الْجَزَاءِ)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 3773
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4662
´فتنہ و فساد کے وقت خاموش رہنے کا بیان۔` ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن بن علی رضی اللہ عنہما کو فرمایا: ”میرا یہ بیٹا سردار ہے اور مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے میری امت کے دو گروہوں میں صلح کرائے گا۔“ حماد کی روایت میں ہے: ”شاید اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں میں صلح کرائے گا ۱؎۔“[سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4662]
فوائد ومسائل: 1: حضرت علی رضی اللہ کے دور میں سیدنا عثمان رضی اللہ کی شہادت کی بنا پر ہر مسلمان دو گرہوں میں بٹ گئے تھے۔ ایک طرف علی رضی اللہ تھے اور دوسری طرف حضرت معاویہ رضی اللہ اور دونوں ہی اپنی اپنی ترجیحات میں بر حق تھے، تاہم سیدنا علی رضی اللہ کا موقف اقرب الی الحق تھا۔
2: سیدنا حسن رضی اللہ نے اپنی خلافت سے دست بردارہو کر ایک عظیم کارنامہ سرانجام دیا اور اس کی وجہ سے ان کے شرف سیادت میں اور اضافہ ہو گیا۔ مگر کچھ لوگوں کو اب تک ان کا یہ عمل ناپسند ہے۔
3: رسول ؐ نے دونوں اطراف کے لوگوں کو اپنی امت کے مسلمان قراردیا ہے اورکسی کو بھی گمراہ یا باطل نہیں فرمایا۔
4: صحابہ کرام یا پھر فقہا ءوائمہ کی اجتہادی غلطیوں کی اشاعت کرنا بہت بڑا اور برا فتنہ ہے، صرف خاص محدود علمی حلقہ میں ان کے مسائل کی علمی تفہیم جائز ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4662