حدثنا محمد بن إسماعيل مولى بني هاشم، حدثنا الثقفي، عن خالد، عن الحكم بن عتيبة انه انطلق هو وناس معه إلى عبد الله بن عكيم رجل من جهينة، قال الحكم: فدخلوا وقعدت على الباب، فخرجوا إلي، فاخبروني ان عبد الله بن عكيم اخبرهم:" ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كتب إلى جهينة قبل موته بشهر ان لا ينتفعوا من الميتة بإهاب ولا عصب"، قال ابو داود: فإذا دبغ لا يقال له إهاب، إنما يسمى شنا وقربة، قال النضر بن شميل يسمى إهابا ما لم يدبغ. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ، حَدَّثَنَا الثَّقَفِيُّ، عَنْ خَالِدٍ، عَنِ الْحَكَمِ بْنِ عُتَيْبَةَ أَنَّهُ انْطَلَقَ هُوَ وَنَاسٌ مَعَهُ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُكَيْمٍ رَجُلٌ مِنْ جُهَيْنَةَ، قَالَ الْحَكَمُ: فَدَخَلُوا وَقَعَدْتُ عَلَى الْبَابِ، فَخَرَجُوا إِلَيَّ، فَأَخْبَرُونِي أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُكَيْمٍ أَخْبَرَهُمْ:" أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَتَبَ إِلَى جُهَيْنَةَ قَبْلَ مَوْتِهِ بِشَهْرٍ أَنْ لَا يَنْتَفِعُوا مِنَ الْمَيْتَةِ بِإِهَابٍ وَلَا عَصَبٍ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: فَإِذَا دُبِغَ لَا يُقَالُ لَه إِهَابٌ، إِنَّمَا يُسَمَّى شَنًّا وَقِرْبَةً، قَالَ النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ يُسَمَّى إِهَابًا مَا لَمْ يُدْبَغْ.
حکم بن عتیبہ سے روایت ہے کہ وہ اور ان کے ساتھ کچھ اور لوگ عبداللہ بن عکیم کے پاس جو قبیلہ جہینہ کے ایک شخص تھے گئے، اندر چلے گئے، میں دروازے ہی پر بیٹھا رہا، پھر وہ لوگ باہر آئے اور انہوں نے مجھے بتایا کہ عبداللہ بن عکیم نے انہیں بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات سے ایک ماہ پیشتر جہینہ کے لوگوں کو لکھا: ”مردار کی کھال اور پٹھوں سے فائدہ نہ اٹھاؤ“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: نضر بن شمیل کہتے ہیں: «اہاب» ایسی کھال کو کہا جاتا ہے جس کی دباغت نہ ہوئی ہو، اور جب دباغت دے دی جائے تو اسے «اہاب» نہیں کہتے بلکہ اسے «شنّ» یا «قربۃ» کہا جاتا ہے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 6642) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: حلال مردہ جانوروں کے چمڑوں سے دباغت کے بعد فائدہ اٹھانا جائز ہے۔
Al-Hakam ibn Uyaynah said that he went along with some people to Abdullah ibn Ukaym, a man of Juhaynah. al-Hakam said: They entered and I sat at the door. Then they came out and told me that Abdullah ibn Ukaym had informed them that the Messenger of Allah ﷺ had written to Juhaynah one month before his death: Do not make use of the skin or sinew of an animal which died a natural death. Abu Dawud said: Al-Nadr bin Shumail said: The skin is called ihab when it is not tanned and when it is tanned, it not called ihab but na, es shann and qirbah (tanned skin or leather).
USC-MSA web (English) Reference: Book 33 , Number 4116
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: حسن مشكوة المصابيح (508) انظر الحديث السابق (4128)
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3613
´مردار کی کھال اور پٹھے سے فائدہ نہ اٹھانے کے قائلین کی دلیل کا بیان۔` عبداللہ بن عکیم کہتے ہیں کہ ہمارے پاس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مکتوب آیا کہ مردار کی کھال اور پٹھوں سے فائدہ نہ اٹھاؤ ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب اللباس/حدیث: 3613]
اردو حاشہ: فوائد ومسائل: مذکورہ بالا احادیث کی روشنی میں اس سے مراد چمڑا ہے جس کو دباغت کے ذریعے سے پاک نہ کر لیا گیا ہو۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 3613
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1729
´دباغت کے بعد مردار جانوروں کی کھال کے استعمال کا بیان۔` عبداللہ بن عکیم کہتے ہیں کہ ہمارے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط آیا کہ تم لوگ مردہ جانوروں کے چمڑے ۱؎ اور پٹھوں سے فائدے نہ حاصل کرو۔ [سنن ترمذي/كتاب اللباس/حدیث: 1729]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: دباغت سے پہلے کی حالت پرمحمول ہے، گویا حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ دباغت سے قبل مردہ جانوروں کے چمڑے سے فائدہ اٹھانا صحیح نہیں ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1729
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4127
´مردار کی کھال کا استعمال ممنوع ہے اس کے قائلین کی دلیل۔` عبداللہ بن عکیم کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مکتوب جہینہ کی سر زمین میں ہمیں پڑھ کر سنایا گیا اس وقت میں نوجوان تھا، اس میں تھا: ”مرے ہوئے جانور سے نفع نہ اٹھاؤ، نہ اس کی کھال سے، اور نہ پٹھوں سے۔“[سنن ابي داود/كتاب اللباس /حدیث: 4127]
فوائد ومسائل: ظاہر ہے کہ رنگے بغیر مردار کا چمرہ استعمال کرنا جائز نہیں۔ علاوہ ازیں اجزا کا حکم مردارہی کا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4127