سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اپنا مال کسی اور کے پاس ہو بہو پائے تو وہی اس کا زیادہ حقدار ہے اور خریدار اس شخص کا پیچھا کرے جس نے اس کے ہاتھ بیچا ہے ۱؎“۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/البیوع 94 (4685)، (تحفة الأشراف: 4595)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/13، 18) (ضعیف)» (اس کے راوة قتادہ اور حسن بصری دونوں مدلس ہیں اور عنعنہ سے روایت کئے ہوئے ہیں)
وضاحت: ۱؎: مثلا کسی نے غصب کیا ہو یا چوری کا مال خرید لیا ہو اور مال والا اپنا مال ہوبہو پائے تو وہی اس مال کا حقدار ہوگا اور خریدار بیچنے والے سے اپنی قیمت کا مطالبہ کرے گا۔
Narrated Samurah ibn Jundub: The Prophet ﷺ said: If anyone finds his very property with a man, he is more entitled to it (than anyone else), and the buyer should pursue the one who sold it.
USC-MSA web (English) Reference: Book 23 , Number 3524
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف نسائي (4685) قتادة عنعن انوار الصحيفه، صفحه نمبر 125
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3531
´جو شخص اپنا مال کسی اور کے پاس پائے تو کیا کرے؟` سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اپنا مال کسی اور کے پاس ہو بہو پائے تو وہی اس کا زیادہ حقدار ہے اور خریدار اس شخص کا پیچھا کرے جس نے اس کے ہاتھ بیچا ہے ۱؎۔“[سنن ابي داود/كتاب الإجارة /حدیث: 3531]
فوائد ومسائل: فائدہ۔ کوئی غصب شدہ چوری شدہ یا گم شدہ مال اگر کسی کے پاس ملے۔ تو وہ اصل مالک کا حق ہے۔ یعنی خریدار تو وہ مالک اصل مالک کو دے دے۔ اور اپنا نقصان یعنی اس مال کی قیمت اس سے وصول کرے۔ جس سے اس نے خریدا تھا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3531