حدثنا ابو الوليد الطيالسي، حدثنا شعبة، عن قتادة، عن ابي الخليل، عن عبد الله بن الحارث، عن حكيم بن حزام، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" البيعان بالخيار ما لم يفترقا فإن صدقا وبينا بورك لهما في بيعهما، وإن كتما، وكذبا محقت البركة من بيعهما"، قال ابو داود: وكذلك رواه سعيد بن ابي عروبة، و حماد، واما همام، فقال: حتى يتفرقا او يختارا ثلاث مرار. حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي الْخَلِيلِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" الْبَيِّعَانِ بِالْخِيَارِ مَا لَمْ يَفْتَرِقَا فَإِنْ صَدَقَا وَبَيَّنَا بُورِكَ لَهُمَا فِي بَيْعِهِمَا، وَإِنْ كَتَمَا، وَكَذَبَا مُحِقَتِ الْبَرَكَةُ مِنْ بَيْعِهِمَا"، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَكَذَلِكَ رَوَاهُ سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ، وَ حَمَّادٌ، وَأَمَّا هَمَّامٌ، فَقَالَ: حَتَّى يَتَفَرَّقَا أَوْ يَخْتَارَا ثَلَاثَ مِرَارٍ.
حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بائع اور مشتری جب تک جدا نہ ہوں دونوں کو بیع کے باقی رکھنے اور فسخ کر دینے کا اختیار ہے، پھر اگر دونوں سچ کہیں اور خوبی و خرابی دونوں بیان کر دیں تو دونوں کے اس خرید و فروخت میں برکت ہو گی اور اگر ان دونوں نے عیوب کو چھپایا، اور جھوٹی باتیں کہیں تو ان دونوں کی بیع سے برکت ختم کر دی جائے گی“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے سعید بن ابی عروبہ اور حماد نے روایت کیا ہے، لیکن ہمام کی روایت میں یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بائع و مشتری کو اختیار ہے جب تک کہ دونوں جدا نہ ہوں، یا دونوں تین مرتبہ اختیار کی شرط نہ کر لیں“۔
Narrated Hakim bin Hizam: The Messenger of Allah ﷺ as saying: Both parties in a business transaction have a right of option (to annul it) so long as they are not separated ; and if they tell the truth and make everything clear, they will be blessed in their transaction, but it they conceal anything and lie, the blessing on their transaction will be blotted out. Abu Dawud said: A similar tradition has also been transmitted by Saeed bin Abi 'Arubah and Hammad. As regards with Hammam, he said in his version: Until they separate or exercise the right of option (to annul the transaction), saying the words of option three times.
USC-MSA web (English) Reference: Book 23 , Number 3452
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (2079) صحيح مسلم (1532)
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1246
´بیچنے والا اور خریدار دونوں کو جب تک وہ جدا نہ ہوں بیع کو باقی رکھنے یا فسخ کرنے کا اختیار ہے۔` حکیم بن حزام رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بائع (بیچنے والا) اور مشتری (خریدار) جب تک جدا نہ ہوں ۱؎ دونوں کو بیع کے باقی رکھنے اور فسخ کر دینے کا اختیار ہے، اگر وہ دونوں سچ کہیں اور سامان خوبی اور خرابی واضح کر دیں تو ان کی بیع میں برکت دی جائے گی اور اگر ان دونوں نے عیب کو چھپایا اور جھوٹی باتیں کہیں تو ان کی بیع کی برکت ختم کر دی جائے گی۔ [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1246]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: جدانہ ہوں سے مراد مجلس سے ادھراُدھرچلے جانا ہے، خود راوی حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بھی یہی تفسیرمروی ہے، بعض نے بات چیت ختم کردینا مراد لیا ہے جوظاہرکے خلاف ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1246
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3459
´بیچنے اور خریدنے والے کے اختیار کا بیان۔` حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بائع اور مشتری جب تک جدا نہ ہوں دونوں کو بیع کے باقی رکھنے اور فسخ کر دینے کا اختیار ہے، پھر اگر دونوں سچ کہیں اور خوبی و خرابی دونوں بیان کر دیں تو دونوں کے اس خرید و فروخت میں برکت ہو گی اور اگر ان دونوں نے عیوب کو چھپایا، اور جھوٹی باتیں کہیں تو ان دونوں کی بیع سے برکت ختم کر دی جائے گی۔“ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے سعید بن ابی عروبہ اور حماد نے روایت کیا ہے، لیکن ہمام کی روایت میں یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بائع و مشتری کو اختیار ہے جب تک کہ دو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابي داود/كتاب الإجارة /حدیث: 3459]
فوائد ومسائل: فائدہ۔ خلاصہ ان روایات کا یہ ہے۔ کہ خریدار اور مالک ایک دوسرے سے جب تک جدا نہ ہوجایئں۔ مالک اور خریدار کو دونوں کو سودا فسخ کرنے کا اختیار رہتا ہے۔ جدائی سے مراد صرف گفتگو کا اختتام نہیں ہے۔ بلکہ جسمانی طور پر جدائی ہے۔ تاہم اختیار کی مہلت طے ہوجائے۔ تو اور بات ہے۔ پھر اس مہلت تک اختیار باقی رہتا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3459