حدثنا سليمان بن حرب، حدثنا حماد، حدثنا غيلان بن جرير، عن ابي بردة، عن ابيه: ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" إني والله إن شاء الله لا احلف على يمين، فارى غيرها خيرا منها، إلا كفرت عن يميني، واتيت الذي هو خير، او قال: إلا اتيت الذي هو خير، وكفرت يميني". حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، حَدَّثَنَا غَيْلَانُ بْنُ جَرِيرٍ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ: أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِنِّي وَاللَّهِ إِنْ شَاءَ اللَّهُ لَا أَحْلِفُ عَلَى يَمِينٍ، فَأَرَى غَيْرَهَا خَيْرًا مِنْهَا، إِلَّا كَفَّرْتُ عَنْ يَمِينِي، وَأَتَيْتُ الَّذِي هُوَ خَيْرٌ، أَوْ قَالَ: إِلَّا أَتَيْتُ الَّذِي هُوَ خَيْرٌ، وَكَفَّرْتُ يَمِينِي".
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قسم اللہ کی میں کسی بات کی قسم کھا لوں اور پھر بھلائی اس کے خلاف میں دیکھوں تو ان شاءاللہ میں اپنی قسم توڑ کر کفارہ دے دوں گا اور اسے اختیار کر لوں گا جس میں بھلائی ہو گی“ یا کہا: ”میں اسے اختیار کر لوں گا جس میں بھلائی ہو گی اور اپنی قسم توڑ کر کفارہ دے دوں گا“۔
Narrated Abu Burdah: On the authority of his father that the Prophet ﷺ said: I swear by Allah that if Allah wills I shall swear on an oath and then consider something else to be better than it without making atonement for my oath and doing the thing that is better. Or he said (according to another version): But doing the thing that is better and making atonement for my oath.
USC-MSA web (English) Reference: Book 21 , Number 3270
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (6623) صحيح مسلم (1649)
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2107
´جس نے کسی بات پر قسم کھائی پھر اس کے خلاف کرنا بہتر سمجھا تو اس کے حکم کا بیان۔` ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اشعری قبیلہ کے چند لوگوں کے ہمراہ آپ سے سواری مانگنے کے لیے حاضر ہوا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کی قسم! میں تم کو سواری نہیں دوں گا، اور میرے پاس سواری ہے بھی نہیں کہ تم کو دوں“، پھر ہم جب تک اللہ نے چاہا ٹھہرے رہے، پھر آپ کے پاس زکاۃ کے اونٹ آ گئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لیے سفید کوہان والے تین اونٹ دینے کا حکم دیا، جب ہم انہیں لے کر چلے تو ہم میں سے ایک نے دوسرے سے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابن ماجه/كتاب الكفارات/حدیث: 2107]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) قسم کی تین قسمیں ہیں:
(ا) لغو: جس میں قسم کا لفظ بولا جائے لیکن قسم کا ارادہ نہ ہو جیسے بعض لوگ عادت کے طور پر بلا ارادہ قسم کے لفظ بول دیتے ہیں۔ اس پر کوئی مواخذہ نہیں تاہم اس سے اجتناب بہتر ہے۔
(ب) غموس: یعنی جھوٹی قسم جو کسی کو دھوکا دینے کے لیے کھائی جائے۔ یہ کبیرہ گناہ ہے، اس پر توبہ استغفار کرنا چاہیے اور آئندہ بچنے کی پوری کوشش کرنی چاہیے تاہم اس پر کفارہ واجب نہیں۔
(ج) معقدہ: جو مستقبل میں کسی کام کرنے کا ارادہ ظاہر کرتے ہوئے کلام میں تاکید اور پختگی کے لیے ارادہ نیت سے کھائے۔ اس قسم کو توڑنے پر کفارہ ادا کرنا ضروری ہے۔ (دیکھیئے: تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف سورہ المائدہ 5: 89) ۔
(2) قسم کا کفارہ دس غریب آدمیوں کو کھانا کھلانا یا انہیں لباس مہیا کرنا یا ایک غلام آزاد کرنا ہے۔ (سورۃ مائدۃ: 89)
(3) ایک آدمی کو خوراک کے طور پر ایک مدغلہ (تقریبا چھ سو گرام) کافی ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے رمضان میں روزے کی حالت میں ہم بستری کر لینے والے کو ساتھ مسکینوں میں تقسیم کرنے کے لیے پندرہ صاع کھجوریں دی تھیں۔ اور ایک صاع میں چار مد ہوتے ہیں۔ بعض علماء کے نزدیک خوراک اور لباس میں عرف کا اعتبار ہے یعنی جسے عام لوگ کہیں کہ اس نے کھانا کھلا دیا قرآن مجید سے یہی ارشارہ معلوم ہوتا ہے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ﴾(المائدۃ، 5: 89) ”اوسط درجے کا جو تم اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہو۔“ یعنی اس کی مقدار مقرر نہیں۔ اپنی استطاعت کے مطابق سادہ یا عمدہ کھانا یا لباس دینا چاہیے۔
(4) نیکی کا کام نہ کرنے یا گناہ کرنے کی قسم کھانا بھی ناجائز ہے۔ اس پر بھی کفارہ ادا کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَلَا تَجْعَلُوا اللَّـهَ عُرْضَةً لِّأَيْمَانِكُمْ أَن تَبَرُّوا وَتَتَّقُوا وَتُصْلِحُوا بَيْنَ النَّاسِ﴾(البقرۃ، 2: 224) ”اور اللہ تعالیٰ کو اپنی قسموں کا (اس طرح) نشانہ نہ بناؤ کہ بھلائی اور پرہیز گاری اور لوگوں کے درمیان صلح کرانا چھوڑ بیٹھو۔“
(5) جو کام نہ کرنے کی قسم کھائی ہو کفارہ اسے انجام دینے سے پہلے بھی دیا جاسکتا ہے بعد میں بھی۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2107