حدثنا مسلم بن إبراهيم، حدثنا هشام، عن ابي الزبير، عن جابر، ان النبي صلى الله عليه وسلم راى امراة فدخل على زينب بنت جحش فقضى حاجته منها، ثم خرج إلى اصحابه، فقال لهم:" إن المراة تقبل في صورة شيطان، فمن وجد من ذلك شيئا فليات اهله، فإنه يضمر ما في نفسه". حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى امْرَأَةً فَدَخَلَ عَلَى زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ فَقَضَى حَاجَتَهُ مِنْهَا، ثُمَّ خَرَجَ إِلَى أَصْحَابِهِ، فَقَالَ لَهُمْ:" إِنَّ الْمَرْأَةَ تُقْبِلُ فِي صُورَةِ شَيْطَانٍ، فَمَنْ وَجَدَ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا فَلْيَأْتِ أَهْلَهُ، فَإِنَّهُ يُضْمِرُ مَا فِي نَفْسِهِ".
جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عورت کو دیکھا تو (اپنی بیوی) زینب بنت حجش رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اور ان سے اپنی ضرورت پوری کی، پھر صحابہ کرام کے پاس گئے اور ان سے عرض کیا: ”عورت شیطان کی شکل میں نمودار ہوتی ہے ۱؎، تو جس کے ساتھ اس طرح کا واقعہ پیش آئے وہ اپنی بیوی کے پاس آ جائے، کیونکہ یہ اس کے دل میں آنے والے احساسات کو ختم کر دے گا“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/النکاح 2 (1403)، سنن الترمذی/الرضاع 9 (1158)، (تحفة الأشراف: 2975)، وقد أخرجہ: سنن النسائی/ الکبری/ عشرة النساء (9121)، مسند احمد (3/330) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: عورت کو شیطان کی شکل میں اس وجہ سے فرمایا کہ جیسے شیطان آدمی کو بہکاتا ہے ویسے بے پردہ عورت بھی بہکاتی ہے۔
Jabir said “The Prophet ﷺ saw a woman so he entered upon Zainab daughter of Jahsh and had intercourse with her. He ﷺ then came out and said to his companions and said to them “A woman advances in the form of a devil. When one of you finds that he should go to his wife (and have intercourse with her) for that will repel what he is feeling.
USC-MSA web (English) Reference: Book 11 , Number 2146
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1158
´آدمی کسی عورت کو دیکھے اور وہ اسے پسند آ جائے تو کیا کرے؟` جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عورت کو دیکھا تو آپ زینب رضی الله عنہا کے پاس تشریف لائے اور آپ نے اپنی ضرورت پوری کی اور باہر تشریف لا کر فرمایا: ”عورت جب سامنے آتی ہے تو وہ شیطان کی شکل میں آتی ہے ۱؎، لہٰذا جب تم میں سے کوئی کسی عورت کو دیکھے اور وہ اسے بھلی لگے تو اپنی بیوی کے پاس آئے اس لیے کہ اس کے پاس بھی اسی جیسی چیز ہے جو اس کے پاس ہے۔“[سنن ترمذي/كتاب الرضاع/حدیث: 1158]
اردو حاشہ: 1؎: ”عورت کو شیطان کی شکل میں“ اس لیے کہا کہ جیسے شیطان آدمی کو بہکاتا ہے ایسے بے پردہ عورت بھی مرد کو بہکاتی ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1158
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2151
´نظر نیچی رکھنے کا حکم۔` جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عورت کو دیکھا تو (اپنی بیوی) زینب بنت حجش رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اور ان سے اپنی ضرورت پوری کی، پھر صحابہ کرام کے پاس گئے اور ان سے عرض کیا: ”عورت شیطان کی شکل میں نمودار ہوتی ہے ۱؎، تو جس کے ساتھ اس طرح کا واقعہ پیش آئے وہ اپنی بیوی کے پاس آ جائے، کیونکہ یہ اس کے دل میں آنے والے احساسات کو ختم کر دے گا۔“[سنن ابي داود/كتاب النكاح /حدیث: 2151]
فوائد ومسائل: 1: بعض قلیل الحیاء لوگ اس صحیح حدیث کے الفاظ سے ترجمعہ میں یہ رنگ بھرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ نعوذبااللہ، رسول ﷺ مغلوب الشہوت قسم کے انسان تھے اور کچھ دوسرے ہیں کہ احادیث کی حجیت کو مشکوک باور کراتے ہیں اور یہ دونوں ہی باتیں علم وذہانت کے منافی ہیں۔ رسول ﷺتو اس قدر باحیا تھے کہ پردے میں بیٹھی ہوئی دو شیزہ کی حیا بھی آپ کی حیا کے سامنے ماند تھی، ایسا ترجمہ کرنے والے مقام رسالت سے آگاہ نہیں آپ نے اپنی حاجت یا ضرورت پوری کی کا ترجمہ عربی زبان وادب میں سوائے مباشرت کے اور ہے ہی نہیں؟ آپ نے صحابہ کی مجلس میں جا کر ایک باقاعدہ کی بات بتائی کہ عورت مرد کے لئے شیطان کی طرح وسوسے پیدا کرتی اور فتنے کا باعث بنتی ہے۔ اس کا بہترین علاج انسان کی اپنی بیوی ہے۔ اس نصیحت کو پچھلے جملوں سے جوڑ کر ایک ایسا مفہوم پیدا کرنا جو ایک عام باوقار شخصیت کے لئے بھی زیب نہ دیتا ہو۔ رسول ﷺکے لئے بیان کرنا ازحد نا مناسب ہے۔
2: عورت کو ایسی کسی صورت میں باہر نہیں نکلنا چاہیے کہ شیطان صفت کہلائی جانے لگے۔
3: صنفی جذبات پورے کرنے کے لئے پاک اور حلال مقام انسان کا اپنا گھر ہے۔
4: عورت کو بھی شوہرکا مطیع ہونا چاہیے تاکہ شوہر پاک اور چادر وصمت بے داغ رہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2151