حدثنا مسدد، حدثنا حماد بن زيد، عن هارون بن رئاب، قال: حدثني كنانة بن نعيم العدوي، عن قبيصة بن مخارق الهلالي، قال: تحملت حمالة فاتيت النبي صلى الله عليه وسلم، فقال:" اقم يا قبيصة حتى تاتينا الصدقة فنامر لك بها"، ثم قال:" يا قبيصة، إن المسالة لا تحل إلا لاحد ثلاثة: رجل تحمل حمالة فحلت له المسالة فسال حتى يصيبها ثم يمسك، ورجل اصابته جائحة فاجتاحت ماله فحلت له المسالة فسال حتى يصيب قواما من عيش او قال: سدادا من عيش، ورجل اصابته فاقة حتى يقول ثلاثة من ذوي الحجى من قومه قد اصابت فلانا الفاقة فحلت له المسالة فسال حتى يصيب قواما من عيش او سدادا من عيش ثم يمسك، وما سواهن من المسالة يا قبيصة سحت ياكلها صاحبها سحتا". حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ هَارُونَ بْنِ رِئَابٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي كِنَانَةُ بْنُ نُعَيْمٍ الْعَدَوِيُّ، عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ مُخَارِقٍ الْهِلَالِيِّ، قَالَ: تَحَمَّلْتُ حَمَالَةً فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" أَقِمْ يَا قَبِيصَةُ حَتَّى تَأْتِيَنَا الصَّدَقَةُ فَنَأْمُرَ لَكَ بِهَا"، ثُمَّ قَالَ:" يَا قَبِيصَةُ، إِنَّ الْمَسْأَلَةَ لَا تَحِلُّ إِلَّا لِأَحَدِ ثَلَاثَةٍ: رَجُلٍ تَحَمَّلَ حَمَالَةً فَحَلَّتْ لَهُ الْمَسْأَلَةُ فَسَأَلَ حَتَّى يُصِيبَهَا ثُمَّ يُمْسِكُ، وَرَجُلٍ أَصَابَتْهُ جَائِحَةٌ فَاجْتَاحَتْ مَالَهُ فَحَلَّتْ لَهُ الْمَسْأَلَةُ فَسَأَلَ حَتَّى يُصِيبَ قِوَامًا مِنْ عَيْشٍ أَوْ قَالَ: سِدَادًا مِنْ عَيْشٍ، وَرَجُلٍ أَصَابَتْهُ فَاقَةٌ حَتَّى يَقُولَ ثَلَاثَةٌ مِنْ ذَوِي الْحِجَى مِنْ قَوْمِهِ قَدْ أَصَابَتْ فُلَانًا الْفَاقَةُ فَحَلَّتْ لَهُ الْمَسْأَلَةُ فَسَأَلَ حَتَّى يُصِيبَ قِوَامًا مِنْ عَيْشٍ أَوْ سِدَادًا مِنْ عَيْشٍ ثُمَّ يُمْسِكُ، وَمَا سِوَاهُنَّ مِنَ الْمَسْأَلَةِ يَا قَبِيصَةُ سُحْتٌ يَأْكُلُهَا صَاحِبُهَا سُحْتًا".
قبیصہ بن مخارق ہلالی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک قرضے کا ضامن ہو گیا، چنانچہ (مانگنے کے لے) میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ نے فرمایا: ”قبیصہ! رکے رہو یہاں تک کہ ہمارے پاس کہیں سے صدقے کا مال آ جائے تو ہم تمہیں اس میں سے دیں“، پھر فرمایا: ”قبیصہ! سوائے تین آدمیوں کے کسی کے لیے مانگنا درست نہیں: ایک اس شخص کے لیے جس پر ضمانت کا بوجھ پڑ گیا ہو، اس کے لیے مانگنا درست ہے اس وقت تک جب تک وہ اسے پا نہ لے، اس کے بعد اس سے باز رہے، دوسرے وہ شخص ہے جسے کوئی آفت پہنچی ہو، جس نے اس کا مال تباہ کر دیا ہو، اس کے لیے بھی مانگتا درست ہے یہاں تک کہ وہ اتنا سرمایہ پا جائے کہ گزارہ کر سکے، تیسرے وہ شخص ہے جو فاقے سے ہو اور اس کی قوم کے تین عقلمند آدمی کہنے لگیں کہ فلاں کو فاقہ ہو رہا ہے، اس کے لیے بھی مانگنا درست ہے یہاں تک کہ وہ اتنا مال پا جائے جس سے وہ گزارہ کر سکے، اس کے بعد اس سے باز آ جائے، اے قبیصہ! ان صورتوں کے علاوہ مانگنا حرام ہے، جو مانگ کر کھاتا ہے گویا وہ حرام کھا رہا ہے“۔
Qabisah bin Mukhiriq al-Hilali said: I became a guarantor for a payment, and I came to Messenger of Allah ﷺ. He said: Wait till I receive the sadaqah and I shall order it to be given to you. He then said: Begging, Qabisah, is allowable only to one of three classes: a man who has become a guarantor for a payment to whom begging is allowed till he gets it, after which he must stop (begging); a man who has been stricken by a calamity and it destroys his property to whom begging is allowed till he gets what will support life (or he said, what will provide a reasonable subsistence); and a man who has been smitten by poverty, about whom three intelligent members of his people confirm by saying: So and so has been smitten by poverty, to such a person begging is allowed till be gets what will support life (or he said, what will provide a reasonable subsistence), after which he must stop (begging). Any other reason for begging, Qabisah, is forbidden, and one who engages in such consumes it as a thing which is forbidden.
USC-MSA web (English) Reference: Book 9 , Number 1636
الصدقة لا تحل إلا لأحد ثلاثة رجل تحمل حمالة فحلت له المسألة حتى يصيب قواما من عيش أو سدادا من عيش رجل أصابته جائحة فاجتاحت ماله فحلت له المسألة حتى يصيبها ثم يمسك رجل أصابته فاقة حتى يشهد ثلاثة من ذوي الحجا من قومه قد أصابت فلانا فاقة فحلت له المس
المسألة لا تحل إلا لأحد ثلاثة رجل تحمل حمالة فحلت له المسألة حتى يصيبها ثم يمسك رجل أصابته جائحة اجتاحت ماله فحلت له المسألة حتى يصيب قواما من عيش أو قال سدادا من عيش رجل أصابته فاقة حتى يقوم ثلاثة من ذوي الحجا من قومه لقد أصابت فلانا فاقة فحلت له
المسألة لا تحل إلا لأحد ثلاث رجل تحمل حمالة فحلت له المسألة فسأل حتى يصيبها ثم يمسك رجل أصابته جائحة فاجتاحت ماله فحلت له المسألة فسأل حتى يصيب قواما من عيش أو قال سدادا من عيش رجل أصابته فاقة حتى يقول ثلاثة من ذوي الحجى من قومه قد أصابت فلانا الف
المسألة لا تحل إلا لإحدى ثلاث رجل تحمل حمالة عن قومه أراد بها الإصلاح فسأل فإذا بلغ أو كرب أمسك رجل أصابته جائحة فاجتاحت فأجاحت ماله فسأل حتى يصيب سدادا من عيش رجل أصابته فاقة فمشى معه ثلاثة من ذوي الحجا من قومه فيقولون إن فلانا قد أصابته فاقة فيس
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 522
´صدقات کی تقسیم کا بیان` سیدنا قبیصہ بن مخارق ہلالی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”سوال کرنا صرف تین آدمیوں کے لیے حلال ہے۔ ایک وہ شخص جو کسی کا بوجھ اٹھا لیتا ہے یہاں تک کہ اس کا قرض وغیرہ ادا ہو جائے پھر وہ سوال کرنے سے باز آ جائے اور دوسرا وہ جو کسی ناگہانی مصیبت میں پھنس گیا ہو اور اس کا مال تباہ و برباد ہو گیا ہو۔ اسے گزر اوقات کی حد تک سوال کرنا جائز ہے۔ تیسرا وہ شخص جسے فاقے آ رہے ہوں اور اس کی قوم کے تین صاحب عقل آدمی اس کی شہادت دیں کہ واقعی اسے فاقہ کشی کا سامنا ہے۔ اسے بھی گزر اوقات کی حد تک سوال کرنا جائز ہے اور ان کے علاوہ اے قبیصہ! سوال حرام ہے اور سوال کرنے والا حرام کھاتا ہے۔“(مسلم، ابوداؤد، ابن خزیمہ، صحیح ابن حبان)[بلوغ المرام/حدیث: 522]
لغوی تشریح 522: ثَلَاثَۃٍ اس پر تنوین ہے۔ رَجُلٍ ثلاثۃ سے بدل ہونے کی وجہ سے مجرور ہے، یا پھر مرفوع ہے۔ اس صورت میں أَحَدُھُمْ مبتدا محذوف ہو گا۔ تَحَمَّلَ ذمہ اٹھایا، کفالت کی۔ حَمَالَۃً ”حا“ پر فتحہ اور ”میم“ مخفف ہے، وہ مال جو انسان دوسرے کیطرف سے ادا کرنے کی ذمہ داری اٹھاتا ہے، مثلاً: دوسرے کا قرض ادا کرنے کی ذمہ داری اپنے سر لیتا ہے یا کسی کی دیت ادا کرنے کی حامی بھرتا ہے یا فریقین کے مابین تنازع کو دور کرنے کے لیے رقم کی ادائیگی کی ذمہ داری قبول کرتا ہے اور وہ ادا کرنے کی پوزیشن میں نہ رہا ہو تو دوسروں سے تعاون کی اپیل کر سکتا ہے اور زکاۃ لے سکتا ہے۔ ٘ ثُّمَّ یُمسِکُ أمساک سے ماخوذ ہے۔ اپنی ضرورت پوری ہونے کے بعد فوراً دستِ سوال دراز کرنے سے رک جائے۔ جَائِحَۃٌ آسمانی یا زمینی آفت، مثلًا: نہایت ٹھنڈی ہوا چلنے سے، آگ لگنے سے یا سیلاب کی وجہ سے فصل تباہ ہو جائے۔ أِجتَاحَت ہلاک کر دے۔ قِوَامًا ”قاف“ کے نیچے کسرہ ہے، یعنی وہ چیز جس سے کوئی شخص اپنی حاجت و ضرورت کا انتظام کرتا ہے اور اپنی خستہ حالی کا سدباب کرتا ہے۔ أَلحِجٰی ”حا“ کے نیچے کسرہ ہے اور آخر میں الفِ مقصورہ ہے، یعنی عقل۔ سُحْتٌ ”سین“ پر ضمہ اور ”حا“ ساکن ہے۔ حرام۔ یَسحَۃُ البَرکَۃَ کے معنی ہیں: جو برکت کو لے اُڑے۔
فوائد و مسائل 522: اس حدیث میں سوال کرنے والے کی حالت معلوم کرنے کے لیے ایک ضابطہ بیان ہوا ہے اور وہ یہ کہ اس کی برادری یا قوم کے تین سرکردہ صاحبِ عقل ودانش آدمی اس کی حالت، کسمپرسی اور فاقہ کشی کی شہادے دیں تو اسے سوال کرنے کی اجازت ہے۔ 2۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ تین قسم کے آدمیوں کے لیے سوال کرنا جائز ہے اور اس میں سائلین کی حالت کو جانچنے اور تحقیق کرنے کا بھی حکم ہے۔ اس سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ اسلام نے گداگری کی کس طرح حوصلہ شکنی کی ہے اور محنت و مزدوری کی ترغیب دی ہے۔ راوئ حدیث: حضرت قبیصہ بن مخارق الہلالی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابوبشر کنیت ہے۔ قبیصہ میں ”قاف“ پر فتحہ اور ”با“ کے نیچے کسرہ ہے۔ اور مخارق میں ”میم“ پر ضمہ ہے۔ سلسلۂ نصب یوں ہے: قبیصہ بن مخارق بن عبداللہ بن شداد العامری الھلالی۔ شرفِ صحابیت سے مشرف تھے۔ بصرہ میں رہائش پذیر ہوے، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وفد کے ساتھ آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے احادیث سنیں۔ چھ احادیث کے راوی ہیں۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 522
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1640
´کن صورتوں میں سوال (مانگنا) جائز ہے؟` قبیصہ بن مخارق ہلالی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک قرضے کا ضامن ہو گیا، چنانچہ (مانگنے کے لے) میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ نے فرمایا: ”قبیصہ! رکے رہو یہاں تک کہ ہمارے پاس کہیں سے صدقے کا مال آ جائے تو ہم تمہیں اس میں سے دیں“، پھر فرمایا: ”قبیصہ! سوائے تین آدمیوں کے کسی کے لیے مانگنا درست نہیں: ایک اس شخص کے لیے جس پر ضمانت کا بوجھ پڑ گیا ہو، اس کے لیے مانگنا درست ہے اس وقت تک جب تک وہ اسے پا نہ لے، اس کے بعد اس سے باز رہے، دوسرے وہ شخص ہے جسے کوئی آفت پہنچی ہو، جس نے اس کا مال تباہ کر دیا ہو، اس کے لیے بھی مانگتا درست ہے یہاں تک کہ وہ اتنا سرمایہ پا جائے کہ گزارہ کر سکے، تیسرے وہ شخص ہے جو فاقے سے ہو اور اس کی قوم کے تین عقلمند آدمی کہنے لگیں کہ فلاں کو فاقہ ہو رہا ہے، اس کے لیے بھی مانگنا درست ہے یہاں تک کہ وہ اتنا مال پا جائے جس سے وہ گزارہ کر سکے، اس کے بعد اس سے باز آ جائے، اے قبیصہ! ان صورتوں کے علاوہ مانگنا حرام ہے، جو مانگ کر کھاتا ہے گویا وہ حرام کھا رہا ہے۔“[سنن ابي داود/كتاب الزكاة /حدیث: 1640]
1640. اردو حاشیہ: اس حدیث میں صرف تین قسم کےآدمیوں کو سوال کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔اور انہیں صدقہ لینا حلال ہے۔ان میں سے ایک غنی اور دو فقیر ہیں۔ پھر فقیر ہونے کی بھی دو صورتیں ہیں۔ ایک ظاہری اور دوسرا مخفی غنی انسان اس وقت مانگ سکتا ہے۔ جب وہ کسی کا ضامن بن جائے۔اور اس کی توضیح یہ ہے کہ کسی قوم میں یا بعض افراد میں کوئی جان یا مال کی بنا ء پر عداوت پیدا ہوجائے۔اور ان کی صلح نہ ہورہی ہو۔بلکہ مذید حالات بگڑنے اور پھوٹ پڑنے کا اندیشہ ہو۔ تو کوئی بھلا انسان ان میں صلح کی پیش کش کردے۔اورقرض یا دیت وغیرہ کی ادایئگی کا ضامن بن جائے تاکہ ان مسلما نوں کی آپس میں صُلح ہوجائے۔ اور پھوٹ نہ پڑے تو ایسے غنی کو دوسرے لوگوں سے تعاون لینے اورسوال کرنے کی اجازت ہے۔اورعام لوگوں کو بھی چاہیے کہ صدقات سے اس کے ساتھ تعاون کریں۔(یہ وہی صورت ہے جو حدیث 1635 کے فائدے میں غارم کی تشریح کرتے ہوئے بیان کی گئی ہے۔) دوسری قسم کاوہ آدمی جس کا مال کسی عام ظاہری آفت سے مثلا ً سیلاب آجانے سے آگ لگ جانے سے سمندر میں غرق ہوجانے سے یا زلزلہ وغیرہ سے ہلاک ہوجائے۔اور عام لوگوں کے علم میں ہو تو ایسے شخص سے دلیل اور گواہ طلب کرنےکی ضرورت نہیں بلکہ ایسے ویسے تعاون دیا جائے اور اس پرصدقات خرچ ہوسکتے ہیں۔تیسری قسم کا وہ شخص ہے۔جو بظاہر مالدار اورغنی ہونے کی شہرت رکھتا ہو۔ مگراندر خانے کسی خسارے۔گھاٹے۔چوری۔دھوکہ۔ اور خیانت ہوجانے کا اس طرح شکار ہوجائے۔ کہ فاقوں تک نوبت آگئی ہو تو ایسے شخص کےلئے اس کی قوم کے تین سمجھدارافراد گواہی دیں۔ تو اس سے سوال کرناجائز ہے۔ اور اس سے تعاون کرناضروری ہے۔ اور اس کو صدقات دینے بھی جائز ہیں۔ حتیٰ کہ وہ گزران حاصل کرلے۔ علاوہ ازیں سوال کرنا حرام اور صدقہ دینا ناجائز ہے۔ تعمیر مساجد۔دینی مدارس۔جہاد اور دیگر رفاہی کام جو مسلمان معاشرے کی اہم ملی ضرورت ہیں۔اور حکومت ان کی زمہ داری نہیں اُٹھاتی یا بہت کم تعاون کرتی ہے۔تو کوئی ایک یا زیادہ افراد باوجود غنی ہونے کے لوگوں سے تعاون حاصل کرکے یہ لوازمات معاشرہ کو مہیا کریں۔ تو ان کےلئے بھی جائز ہے کہ وہ مذکورہ امور کےلئے لوگوں سے سوال کریں۔اور دوسروں پر بھی لازم ہے کہ ایسے امور میں ان سے تعاون کریں۔بشر ط یہ کہ یہ لوگ اپنا بااعتماد ہونا ثابت رکھیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1640