حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا حماد، عن ثابت، وعلي بن زيد، وسعيد الجريري، عن ابي عثمان النهدي، ان ابا موسى الاشعري، قال: كنت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في سفر، فلما دنوا من المدينة كبر الناس ورفعوا اصواتهم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يا ايها الناس، إنكم لا تدعون اصم ولا غائبا، إن الذي تدعونه بينكم وبين اعناق ركابكم"، ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يا ابا موسى، الا ادلك على كنز من كنوز الجنة؟" فقلت: وما هو؟ قال:" لا حول ولا قوة إلا بالله". حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ ثَابِتٍ، وَعَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ، وَسَعِيدٍ الْجُرَيْرِيِّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ، أَنَّ أَبَا مُوسَى الْأَشْعَرِيَّ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، فَلَمَّا دَنَوْا مِنْ الْمَدِينَةِ كَبَّرَ النَّاسُ وَرَفَعُوا أَصْوَاتَهُمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّكُمْ لَا تَدْعُونَ أَصَمَّ وَلَا غَائِبًا، إِنَّ الَّذِي تَدْعُونَهُ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ أَعْنَاقِ رِكَابِكُمْ"، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا أَبَا مُوسَى، أَلَا أَدُلُّكَ عَلَى كَنْزٍ مِنْ كُنُوزِ الْجَنَّةِ؟" فَقُلْتُ: وَمَا هُوَ؟ قَالَ:" لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ".
ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھا، جب لوگ مدینہ کے قریب پہنچے تو لوگوں نے تکبیر کہی اور اپنی آوازیں بلند کیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگو! تم کسی بہرے یا غائب کو آواز نہیں دے رہے ہو، بلکہ جسے تم پکار رہے ہو وہ تمہارے اور تمہاری سواریوں کی گردنوں کے درمیان ہے ۱؎“، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے ابوموسیٰ! کیا میں تمہیں جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ نہ بتاؤں؟“، میں نے عرض کیا: وہ کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ «لا حول ولا قوة إلا بالله» ہے“۔
وضاحت: ۱؎: یہ اللہ رب العزت کے علم و قدرت اور سمع کی رو سے ہے، رہی اس کی ذات تو وہ عرش کے اوپر مستوی اور بلند و بالا ہے، نیز اس حدیث سے ذکر سری کی ذکر جہری پر فضیلت ثابت ہوتی ہے۔
Narrated Abu Musa al-Ashari: Once we accompanied the Messenger of Allah ﷺ on a journey. When we reached near Madina, the people began to say aloud: "Allah is most great, " and they raised their voice. The Messenger of Allah ﷺ said: O people, you are not supplicating one who is deaf and absent, but you are supplicating One Who is nearer to you than the neck of your riding beast. The Messenger of Allah ﷺ then said: Abu Musa, should I not point out to you one of the treasures of Paradise? I asked: What is that? He replied: "There is no might and there is no power except in Allah"
USC-MSA web (English) Reference: Book 8 , Number 1521
قال الشيخ الألباني: صحيح ق دون قوله إن الذي تدعونه بينكم وبين أعناق ركائبكم وهو منكر
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح أصله متفق عليه انظر البخاري (2992) ومسلم (2704)
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1526
´توبہ و استغفار کا بیان۔` ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھا، جب لوگ مدینہ کے قریب پہنچے تو لوگوں نے تکبیر کہی اور اپنی آوازیں بلند کیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگو! تم کسی بہرے یا غائب کو آواز نہیں دے رہے ہو، بلکہ جسے تم پکار رہے ہو وہ تمہارے اور تمہاری سواریوں کی گردنوں کے درمیان ہے ۱؎“، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے ابوموسیٰ! کیا میں تمہیں جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ نہ بتاؤں؟“، میں نے عرض کیا: وہ کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ «لا حول ولا قوة إلا بالله» ہے۔“[سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر /حدیث: 1526]
1526. اردو حاشیہ: ➊ اللہ عزوجل بذاتہ عرش معلیٰ پر ہے۔ اور اپنے علم۔ سمع۔ بصر۔ اور قدرت کے لہاظ سے اپنے بندوں اور مخلوق کے انتہائی قریب ہے۔ اسی مفہوم میں یہاں ذکر ہوا ہے کہ وہ تمہارے اور تمہاری سواریوں کی گردنوں کے درمیان ہے۔ ➋ قران کریم اور احادیث صحیحہ میں اللہ عزوجل کی صفات دو انداز سے مذکور ہوئی ہیں۔ اثباتی اور سلبی۔ جیسا کہ سورہ اخلاص میں ہے کہ وہ اکیلا ہے۔ صمد ہے ان میں اثبات ہے۔ اس نے جنا نہیں وہ جنا نہیں گیا۔ کوئی اس کی برابری کرنے والا نہیں ہے۔ ان میں سلب کا اثبات ہے۔ مذکورہ بالا حدیث میں دوسری نوع کی صفات کا ذکر ہے۔ وہ بہرا نہیں ہے یعنی سمیع ہے۔ وہ غائب نہیں ہے۔ یعنی قریب ہے۔ ➌ چلا چلا کر اللہ کا ذكر كرنا بے عقلی ہے۔ جن مواقع پر اونچی آوازسے ذکرکرنے کا بیان آیا ہے۔ وہاں آواز بالکل مناسب اور معقول رکھنے کی تعلیم ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ [وَلَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا وَابْتَغِ بَيْنَ ذَٰلِكَ سَبِيلًا)[بني إسرایئل:110] ➍ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے کلمہ [لاحول ولاقوة ] كو كلمه استدلام وتفويض سے تعبیر کیا ہے۔ یعنی بندہ فی ذاتہ کسی چیز کا مالک نہیں۔ مگر وہی جو اللہ چاہے۔ ➎ شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اس میں (إِنَّ الذِي تدعونَه بينَكُم و بين أعناقِ ركابِكم] بے شک جسے تم پکارتے ہو وہ تمہارے او ر تمہاری سواریوں کی گردنوں کے درمیان ہے۔ کے الفاظ منکر ضعیف ہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1526