حدثنا احمد بن عمرو بن السرح، اخبرنا ابن وهب، اخبرني معاوية، عن العلاء بن الحارث، عن القاسم مولى معاوية، عن عقبة بن عامر، قال: كنت اقود برسول الله صلى الله عليه وسلم ناقته في السفر، فقال لي:" يا عقبة، الا اعلمك خير سورتين قرئتا؟" فعلمني: قل اعوذ برب الفلق و قل اعوذ برب الناس قال: فلم يرني سررت بهما جدا، فلما نزل لصلاة الصبح صلى بهما صلاة الصبح للناس، فلما فرغ رسول الله صلى الله عليه وسلم من الصلاة التفت إلي، فقال:" يا عقبة كيف رايت؟". حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي مُعَاوِيَةُ، عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ الْقَاسِمِ مَوْلَى مُعَاوِيَةَ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، قَالَ: كُنْتُ أَقُودُ بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَاقَتَهُ فِي السَّفَرِ، فَقَالَ لِي:" يَا عُقْبَةُ، أَلَا أُعَلِّمُكَ خَيْرَ سُورَتَيْنِ قُرِئَتَا؟" فَعَلَّمَنِي: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ وَ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ قَالَ: فَلَمْ يَرَنِي سُرِرْتُ بِهِمَا جِدًّا، فَلَمَّا نَزَلَ لِصَلَاةِ الصُّبْحِ صَلَّى بِهِمَا صَلَاةَ الصُّبْحِ لِلنَّاسِ، فَلَمَّا فَرَغَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الصَّلَاةِ الْتَفَتَ إِلَيَّ، فَقَالَ:" يَا عُقْبَةُ كَيْفَ رَأَيْتَ؟".
عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اونٹ کی نکیل پکڑ کر چل رہا تھا، آپ نے فرمایا: ”عقبہ! کیا میں تمہیں دو بہترین سورتیں نہ سکھاؤں؟“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے «قل أعوذ برب الفلق» اور «قل أعوذ برب الناس» سکھائیں، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ان دونوں (کے سیکھنے) سے بہت زیادہ خوش ہوتے نہ پایا، چنانچہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فجر کے لیے (سواری سے) اترے تو لوگوں کو نماز پڑھائی اور یہی دونوں سورتیں پڑھیں، پھر جب نماز سے فارغ ہوئے تو میری طرف متوجہ ہو کر فرمایا: ”عقبہ! تم نے انہیں کیا سمجھا ہے ۱؎“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابوداود، (تحفة الأشراف:9946)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/المسافرین 46 (814)، سنن الترمذی/فضائل القرآن 12 (2902)، قیام اللیل (1337)، ن الکبری/الاستعاذة (7848)، مسند احمد (4/144، 149، 151، 153)، سنن الدارمی/فضائل القرآن 24 (3482) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: انہیں معمولی اور حقیر سمجھ رہے ہو، حالانکہ یہ بڑے کام کی ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بلاؤں اور جادو سے نجات پانے کے لئے یہ سورتیں پڑھتے تھے۔
Narrated Uqbah ibn Amir: I was driving the she-camel of the Messenger of Allah ﷺ during a journey. He said to me: Uqbah, should I not teach you two best surahs ever recited? He then taught me: "Say, I seek refuge in the Lord of the dawn, " and "Say, I seek refuge in the Lord of men. " He did not see me much pleased (by these two surahs). When he alighted for prayer, he led the people in the morning prayer and recited them in prayer. When the Messenger of Allah ﷺ finished his prayer, he turned to me and said: O Uqbah, how did you see.
USC-MSA web (English) Reference: Book 8 , Number 1457
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن مشكوة المصابيح (848) أخرجه النسائي (5438 وسنده حسن)
ألا أعلمك خير سورتين قرئتا فعلمني قل أعوذ برب الفلق و قل أعوذ برب الناس قال فلم يرني سررت بهما جدا فلما نزل لصلاة الصبح صلى بهما صلاة الصبح للناس فلما فرغ رسول الله من الصلاة التفت إلي فقال يا عقبة كيف رأيت
ألا أعلمك خير سورتين قرئتا فعلمني قل أعوذ برب الفلق و قل أعوذ برب الناس فلم يرني سررت بهما جدا فلما نزل لصلاة الصبح صلى بهما صلاة الصبح للناس فلما فرغ رسول الله من الصلاة التفت إلي فقال يا عقبة كيف رأيت
ألا أعلمك سورتين من خير سورتين قرأ بهما الناس فأقرأني قل أعوذ برب الفلق و قل أعوذ برب الناس فأقيمت الصلاة فتقدم فقرأ بهما ثم مر بي فقال كيف رأيت يا عقبة بن عامر اقرأ بهما كلما نمت وقمت
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1462
´سورۃ الفلق اور سورۃ الناس کی فضیلت کا بیان۔` عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اونٹ کی نکیل پکڑ کر چل رہا تھا، آپ نے فرمایا: ”عقبہ! کیا میں تمہیں دو بہترین سورتیں نہ سکھاؤں؟“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے «قل أعوذ برب الفلق» اور «قل أعوذ برب الناس» سکھائیں، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ان دونوں (کے سیکھنے) سے بہت زیادہ خوش ہوتے نہ پایا، چنانچہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فجر کے لیے (سواری سے) اترے تو لوگوں کو نماز پڑھائی اور یہی دونوں سورتیں پڑھیں، پھر جب نماز سے فارغ ہوئے تو میری طرف متوجہ ہو کر فرمایا: ”عقبہ! تم نے انہیں کیا سمجھا ہے ۱؎۔“[سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر /حدیث: 1462]
1462. اردو حاشیہ: ➊ حضرت عقبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ شاید یہ سمجھے کہ کوئی خاص لمبی سورتیں پڑھائی جایئں گی۔ مگر یہ مختصر تھیں اس لئے ابتداءً کوئی زیادہ خوش نہیں ہوئے۔ تو نبی کریمﷺ نے نماز فجر میں ان کی قراءت کرکے ان کی فضیلت واہمیت واضح فرما دی۔ نیز ثابت ہے کہ یہ سورتیں دافع سحر۔ حفظ وامان اور جامع تعوذات ہیں۔ ➋ اور بعض لوگ اب بھی ایسے ہیں۔ کہ وہ لمبے لمبے پر مشقت وظیفوں کے شائق رہتے ہیں۔ حالانکہ چاہیے کہ سنت صحیحہ سے ثابت شدہ سہل اور خفیف اذکار کو اپنا معمول بنایاجائے۔اس میں محنت کم اور اجر وفضیلت زیاد ہ ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1462