حدثنا محمد بن سلمة، حدثنا ابن وهب، عن عمرو بن الحارث، ان بكيرا، حدثه ان كريبا مولى ابن عباس حدثه، ان عبد الله بن عباس راى عبد الله بن الحارث يصلي وراسه معقوص من ورائه، فقام وراءه فجعل يحله واقر له الآخر، فلما انصرف اقبل إلى ابن عباس، فقال: ما لك وراسي؟ قال: إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" إنما مثل هذا مثل الذي يصلي وهو مكتوف". حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ، أَنَّ بُكَيْرًا، حَدَّثَهُ أَنَّ كُرَيْبًا مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ حَدَّثَهُ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ رَأَى عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الْحَارِثِ يُصَلِّي وَرَأْسُهُ مَعْقُوصٌ مِنْ وَرَائِهِ، فَقَامَ وَرَاءَهُ فَجَعَلَ يَحُلُّهُ وَأَقَرَّ لَهُ الْآخَرُ، فَلَمَّا انْصَرَفَ أَقْبَلَ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، فَقَالَ: مَا لَكَ وَرَأْسِي؟ قَالَ: إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِنَّمَا مَثَلُ هَذَا مَثَلُ الَّذِي يُصَلِّي وَهُوَ مَكْتُوفٌ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے آزاد کردہ غلام کریب کا بیان ہے کہ عبداللہ بن عباس نے عبداللہ بن حارث رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ نماز پڑھ رہے ہیں اور ان کے پیچھے بالوں کا جوڑا بندھا ہوا ہے، تو وہ ان کے پیچھے کھڑے ہو کر اسے کھولنے لگے اور عبداللہ بن حارث چپ چاپ کھڑے رہے، جب نماز سے فارغ ہوئے تو ابن عباس کی طرف متوجہ ہوئے اور کہنے لگے: آپ نے میرا سر کیوں کھول دیا؟ تو انہوں نے کہا: اس لیے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ: ”اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی نماز پڑھ رہا ہو اور اس کے ہاتھ پیچھے رسی سے بندھے ہوں“۔
وضاحت: اسی طرح سنن ابوداود حدیث ۶۴۶ میں ہے کہ ”بالوں کا جوڑا شیطان کی بیٹھک ہے“۔ مردوں کے لیے بالوں کا جوڑا بنانا بالخصوص نماز میں جائز نہیں۔ چاہیے کہ انہیں ویسے ہی لمبا چھوڑ دیا جائے اور سجدہ کی حالت میں زمین پر لگنے دیا جائے۔ دوسری حدیث میں صراحت ہے کہ ”مجھے حکم ہے کہ سات ہڈیوں پر سجدہ کروں اور بالوں کو نہ باندھوں اور کپڑوں کو نہ سمیٹوں“۔ (صحیح بخاری حدیث ۸۱۲، صحیح مسلم حدیث ۴۹۰) جن بزرگوں کے متعلق آیا ہے کہ انہوں نے جوڑا بنایا ہوا تھا تو شاید انہیں یہ ارشاد نبوی معلوم نہ تھا۔
Narrated Abdullah ibn Abbas: Kurayb the freed slave of Ibn Abbas reported: Abdullah ibn Abbas saw Abdullah ibn al-Harith praying having the back knot of the hair. He stood behind him and began to untie it. He remained standing unmoved (stationary). When he finished his prayer he came to Ibn Abbas and said to him: What were you doing with my head? He said: I heard the Messenger of Allah ﷺ say: A man who prays with the black knot of hair tied is the one praying pinioned.
USC-MSA web (English) Reference: Book 2 , Number 647
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 647
´آدمی بالوں کا جوڑا باندھ کر نماز پڑھے تو کیسا ہے؟` عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے آزاد کردہ غلام کریب کا بیان ہے کہ عبداللہ بن عباس نے عبداللہ بن حارث رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ نماز پڑھ رہے ہیں اور ان کے پیچھے بالوں کا جوڑا بندھا ہوا ہے، تو وہ ان کے پیچھے کھڑے ہو کر اسے کھولنے لگے اور عبداللہ بن حارث چپ چاپ کھڑے رہے، جب نماز سے فارغ ہوئے تو ابن عباس کی طرف متوجہ ہوئے اور کہنے لگے: آپ نے میرا سر کیوں کھول دیا؟ تو انہوں نے کہا: اس لیے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ: ”اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی نماز پڑھ رہا ہو اور اس کے ہاتھ پیچھے رسی سے بندھے ہوں۔“[سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 647]
647۔ اردو حاشیہ: ➊ مردوں کے لیے بالوں کا جوڑا بنانا بالخصوص نماز میں جائز نہیں، چاہیے کہ انہیں ویسے ہی لمبا چھوڑ دیا جائے اور سجدے کی حالت میں زمیں پر لگنے دیا جائے۔ دوسری حدیث میں صراحت ہے کہ ”مجھے حکم ہے کہ سات ہڈیوں پر سجدہ کروں اور بالوں کو نہ باندھوں اور کپڑے کو نہ سمیٹوں۔“[صحيح بخاري، حديث: 812 و صحيح مسلم، حديث: 490] ➋ جن بزگوں کے متعلق آیا ہے کہ انہوں نے جوڑا بنایا ہوا تھا تو شاید انہیں یہ ارشاد نبوی معلوم نہ تھا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 647