ابوسفیان بن سعید بن مغیرہ کا بیان ہے کہ وہ ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے، تو ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے انہیں ایک پیالہ ستو پلایا، پھر (ابوسفیان) نے پانی منگا کر کلی کی، ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میرے بھانجے! تم وضو کیوں نہیں کرتے؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”جنہیں آگ نے بدل ڈالا ہو“، یا فرمایا: ”جنہیں آگ نے چھوا ہو، ان چیزوں سے وضو کرو“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: زہری کی حدیث میں لفظ: «يا ابن أخي»”اے میرے بھتیجے“ ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/الطھارة 122 (180)، (تحفة الأشراف: 15871)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/326، 327) (صحیح)»
Narrated Umm Habibah: Abu Sufyan ibn Saeed ibn al-Mughirah reported that he entered upon Umm Habibah who presented him a glass of sawiq (a drink prepared with flour and water) to drink. He called for water and rinsed his mouth. She said: O my cousin, don't you perform ablution? The Prophet ﷺ said: Perform ablution after eating anything cooked with fire, or he said: anything touched by fire. Abu Dawud said: The version of al-Zuhri has: O my paternal cousin.
USC-MSA web (English) Reference: Book 1 , Number 195
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح أخرجه النسائي (180) وسنده صحيح
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 181
´آگ پر پکی ہوئی چیز کھانے سے وضو کرنے کا بیان۔` ابوسفیان بن سعید بن اخنس سے روایت ہے کہ ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے ان سے کہا (جب انہوں نے ستو پیا) بھانجے! وضو کر لو، کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”آگ کی پکی چیز (کھانے) سے وضو کرو۔“[سنن نسائي/صفة الوضوء/حدیث: 181]
181۔ اردو حاشیہ: مندرجہ بالا احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آگ پر پکی ہوئی چیز کھانے سے وضو کرنا چاہیے مگر اس حکم کو وجوب پر محمول کرنا مشکل ہے کیونکہ وضو تو کسی پلید چیز نکلنے سے ٹوٹتا ہے نہ کہ پاک چیز کھانے سے جیسا کہ حدیث نمبر 174 میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اشکال ظاہر فرمایا ہے، لہٰذا ان احادیث کو یا تو استحباب پر محمول کیا جائے گا یا یہ حکم منسوخ ہے جیسا کہ آئندہ باب کی احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ شروع دور میں آپ نے یہ حکم دیا تھا بعد میں آپ نے خود ہی اس حکم پر عمل نہیں کیا۔ (دیکھیے: حدیث: 185) اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی اس پر عمل چھوڑ دیا اور یہی جمہور فقہاء و محدثین کا مسلک ہے اور یہی راجح ہے۔ واللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 181