● صحيح البخاري | 5532 | عبد الله بن عباس | ما على أهلها لو انتفعوا بإهابها |
● صحيح البخاري | 5531 | عبد الله بن عباس | هلا استمتعتم بإهابها قالوا إنها ميتة قال إنما حرم أكلها |
● صحيح البخاري | 2221 | عبد الله بن عباس | هلا استمتعتم بإهابها قالوا إنها ميتة قال إنما حرم أكلها |
● صحيح البخاري | 1492 | عبد الله بن عباس | هلا انتفعتم بجلدها قالوا إنها ميتة قال إنما حرم أكلها |
● صحيح مسلم | 814 | عبد الله بن عباس | دباغه طهوره |
● صحيح مسلم | 812 | عبد الله بن عباس | إذا دبغ الإهاب فقد طهر |
● صحيح مسلم | 815 | عبد الله بن عباس | دباغه طهوره |
● صحيح مسلم | 806 | عبد الله بن عباس | هلا أخذتم إهابها فدبغتموه فانتفعتم به فقالوا إنها ميتة فقال إنما حرم أكلها |
● صحيح مسلم | 811 | عبد الله بن عباس | ألا انتفعتم بإهابها |
● صحيح مسلم | 807 | عبد الله بن عباس | هلا انتفعتم بجلدها قالوا إنها ميتة فقال إنما حرم أكلها |
● صحيح مسلم | 809 | عبد الله بن عباس | ألا أخذوا إهابها فدبغوه فانتفعوا به |
● صحيح مسلم | 810 | عبد الله بن عباس | أخذتم إهابها فاستمتعتم به |
● جامع الترمذي | 1728 | عبد الله بن عباس | أيما إهاب دبغ فقد طهر |
● جامع الترمذي | 1727 | عبد الله بن عباس | ألا نزعتم جلدها ثم دبغتموه فاستمتعتم به |
● سنن أبي داود | 4120 | عبد الله بن عباس | ألا دبغتم إهابها واستنفعتم به |
● سنن أبي داود | 4123 | عبد الله بن عباس | إذا دبغ الإهاب فقد طهر |
● سنن النسائى الصغرى | 4246 | عبد الله بن عباس | أيما إهاب دبغ فقد طهر |
● سنن النسائى الصغرى | 4247 | عبد الله بن عباس | الدباغ طهور |
● سنن النسائى الصغرى | 4244 | عبد الله بن عباس | ألا انتفعتم بإهابها |
● سنن النسائى الصغرى | 4243 | عبد الله بن عباس | ألا أخذتم إهابها فدبغتم فانتفعتم |
● سنن النسائى الصغرى | 4242 | عبد الله بن عباس | ألا دفعتم إهابها فاستمتعتم به |
● سنن النسائى الصغرى | 4266 | عبد الله بن عباس | لو انتفعوا بإهابها |
● سنن النسائى الصغرى | 4241 | عبد الله بن عباس | لو نزعوا جلدها فانتفعوا به قالوا إنها ميتة قال |
● سنن النسائى الصغرى | 4240 | عبد الله بن عباس | هلا انتفعتم بجلدها قالوا يا رسول الله إنها ميتة فقال رسول الله إنما حرم أكلها |
● سنن النسائى الصغرى | 4239 | عبد الله بن عباس | لو انتفعت بإهابها قالوا إنها ميتة فقال إنما حرم الله أكلها |
● سنن ابن ماجه | 3610 | عبد الله بن عباس | هلا أخذوا إهابها فدبغوه فانتفعوا به فقالوا يا رسول الله إنها ميتة قال إنما حرم أكلها |
● سنن ابن ماجه | 3609 | عبد الله بن عباس | أيما إهاب دبغ فقد طهر |
● بلوغ المرام | 16 | عبد الله بن عباس | إذا دبغ الإهاب فقد طهر |
● موطا امام مالك رواية ابن القاسم | 33 | عبد الله بن عباس | إذا دبغ الإهاب فقد طهر |
● المعجم الصغير للطبراني | 125 | عبد الله بن عباس | أيما إهاب دبغ ، فقد طهر |
● مسندالحميدي | 317 | عبد الله بن عباس | ما على أهل هذه لو أخذوا إهابها فدبغوه، فانتفعوا به |
● مسندالحميدي | 492 | عبد الله بن عباس | أيما إهاب دبغ فقد طهر |
● مسندالحميدي | 498 | عبد الله بن عباس | ما على أهل هذه لو أخذوا إهابها فدبغوه وانتفعوا به |
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 16
´دباغت (رنگائی) کے بعد ہر قسم کا چمڑا پاک ہو جاتا ہے`
«. . . قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: إذا دبغ الإهاب فقد طهر . . .»
”. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ”جب کچے چمڑے کو (مسالہ لگا کر) رنگ دیا جائے تو وہ پاک ہو جاتا ہے . . .“ [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 16]
لغوی تشریح:
«دُبِغَ» «دِبَاغ» سے ماخوذ ہے۔ «دُبِغَ» صیغۂ مجہول ہے۔ اس کا مطلب ہے: چمڑے کی رطوبت اور دیگر فضلات (گندگیوں) کو خشک کرنا اور جو چیز اس کی بدبو اور خرابی کی موجب ہو اسے زائل کرنا۔
«اَلْإِهَابُ» بروزن «اَلْكِتَابُ» ۔ مطلق چمڑے کے لیے استعمال ہوتا ہے یا پھر اس چمڑے کو بھی کہتے ہیں جسے ابھی تک رنگا نہ گیا ہو۔
«أَيُّمَا إِهَابٍ دُبِغَ» باقی ماندہ الفاظ حدیث یہ ہیں: «فَقَدْ طَهُرَ» اور «أَيُّمَا» عمومیت کا مفہوم ادا کرتا ہے، اس لیے اس میں تمام چمڑے شامل ہیں۔
فوائد و مسائل:
➊ یہ حدیث ہر قسم اور ہر نوع کے حیوانات کے چمڑوں کو شامل ہے، البتہ خنزیر، یعنی سور کا چمڑا بالاتفاق اس سے مستثنیٰ ہے اور اکثریت کے نزدیک کتے کا چمڑا بھی مستثنیٰ ہے اور محققین علماء کے نزدیک ان تمام جانوروں کا چمڑا بھی مستثنیٰ ہے جو غیر مأکول اللحم ہیں، یعنی جن کا گوشت کھایا نہیں جاتا۔
➋ حدیث مذکور سے معلوم ہوتا ہے کہ دباغت (رنگائی) کے بعد ہر قسم کا چمڑا پاک ہو جاتا ہے، وہ چمڑا خواہ حلال جانور کا ہو یا حرام کا، جانور خواہ شرعی طریقے سے ذبح کیا گیا ہو یا خود اپنی طبعی موت مرا ہو۔ اس اصول عمومی کے باوجود بعض جانور ایسے ہیں جن کے چمڑے کو دباغت کے باوجود پاک قرار نہیں دیا گیا، مثلاً: خنزیر کا چمڑا، اسے نجس عین ہونے کی بنا پر پاک قرار نہیں دیا گیا اور انسان کا چمڑا، اسے بھی بوجہ اس کی کرامت و بزرگی اور شرف کے حرام ٹھہرایا گیا ہے تاکہ بےقدری سے اسے محفوظ رکھا جائے۔
➌ بعض لوگوں کی رائے ہے کہ خنزیر اور کتے پر اگر تکبیر پڑھ کر انہیں ذبح کیا جائے تو اس صورت میں وہ بھی پاک ہو جاتا ہے جبکہ یہ رائے صحیح نہیں ہے۔ اسی طرح احناف کا کتے کے چمڑے کو دباغت کے بعد پاک قرار دینا بھی صائب و صحیح رائے پر مبنی نہیں ہے۔
➍ یہ ذہن نشین رہے کہ جن جانوروں کے چمڑے دباغت کے بعد پاک ہو جاتے ہیں ان کے سینگ، بال، دانت اور ہڈیاں وغیرہ کام میں لائی جا سکتی ہیں، نیز ان کی تجارت بھی کی جا سکتی ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 16
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 33
´مردار کی کھال سے دباغت کے بعد فائدہ اٹھانا`
«. . . عن عبد الله بن عباس ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”إذا دبغ الإهاب فقد طهر . . .»
”. . . سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب چمڑے کو دباغت دی جائے تو وہ پاک ہو جاتا ہے . . .“ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 33]
تخریج الحدیث: [وأخرجه مسلم 366/105، من حديث ما لك به .]
تفقه:
➊ حلال جانوروں کی جلد کو اہاب کہتے ہیں۔ مشہور نحوی امام ابوالحسن النضر بن شمیل المازنی البصری رحمہ اللہ (متوفی 203ھ) نے فرمایا: اونٹ، گائے اور بکریوں کی کھال کو اہاب اور درندوں کی کھال کوجلد کہاجاتا ہے۔ مسائل الامام احمد اسحاق بن راہوی اولیه اسحاق بن منصور الکوسج 215/1 فقرہ: 477 وسندہ صحیح)
● تقریباً یہی بات اختصار کے ساتھ امام اسحاق بن راہویہ نے کہی ہے۔ (ایضاً: 477) نیز ملاحظ فرمائیں لسان العرب (مادة: أهب)
◄ معلوم ہوا کہ حلال جانوروں کی کھالیں دباغت سے پاک ہو جاتی ہیں۔ واضح رہے کہ اس سے درندے مثلاً کتے وغیرہ مراد نہیں ہیں۔ درندوں کی کھالوں کی ممانعت کے لئے دیکھئے الموطأ ح:52
➋ مزيد فقہی فوائد کے لئے دیکھئے الموطأ حدیث:52
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 182
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1727
´دباغت کے بعد مردار جانوروں کی کھال کے استعمال کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک بکری مر گئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بکری والے سے کہا: تم نے اس کی کھال کیوں نہ اتار لی؟ پھر تم دباغت دے کر اس سے فائدہ حاصل کرتے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب اللباس/حدیث: 1727]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
معلوم ہواکہ مردہ جانور کی کھال سے فائدہ دباغت (پکانے) کے بعد ہی اٹھایا جاسکتا ہے،
اور ان روایتوں کوجن میں دباغت (پکانے) کی قید نہیں ہے،
اسی دباغت والی روایت پر محمول کیاجائے گا۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1727
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 815
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
أَسْقِيَة:
سقاء،
کی جمع ہے۔
چمڑے کے مشکیزہ کو کہتے ہیں۔
(2)
دَبَاغَت:
ہر اس چیز سے جائز ہے جو کھال کی رطوبت کو خشک کرکے،
اس کی بدبو کو زائل کردے،
اور کھال سڑنے گلنے سے محفوظ ہوجائے۔
فوائد ومسائل:
احادیث مذکورہ بالا میں صرف جائز حیوانات کا یا مجوسیو،
کے مشکیزوں کا تذکرہ ہے حلال جانور کی کھال کے دباغت سے پاک ہونے میں کوئی اختلاف نہیں حلت و حرمت سے قطع نظر عمومی طور پر آئمہ کے مختلف نظریات ہیں (1)
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک سور اور کتے کے سواہر ایک مردہ جانور کی کھال اندر اور باہر سے پاک ہو جاتی ہے اس لیے اس میں خشک اور تر ہر قسم کی چیز رکھی جا سکتی ہے۔
(2)
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا مشہور قول یہ ہے دباغت سے کسی مردہ جانور کی کھال پاک نہیں ہوتی۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی طرف یہی قول منسوب ہے۔
(3)
امام اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ،
ابن المبارک رحمۃ اللہ علیہ اور اسحٰق بن راہویہ رحمۃ اللہ علیہ کا نظریہ یہ ہے کہ صرف حلال جانور کی کھال رنگنے سے پاک ہوتی ہے حرام جانور کی کھال پاک نہیں ہوتی۔
(4)
امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک خنزیر کے سوا ہر مردار جانور کی کھال رنگنے سے پاک ہو جاتی ہے۔
(5)
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا دوسرا قول یہ ہے رنگنے سے سب کھالیں پاک ہو جاتی ہیں،
مگر صرف باہر سے،
اندر سے نہیں اس لیے ان میں کوئی تر چیز نہیں ڈالی جا سکتی۔
(6)
ہر جانور کی کھال اندر اور باہر سے رنگنے سے پاک ہو جاتی ہے امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ اور داؤد ظاہری کا یہی موقف ہے۔
(7)
بلا رنگے ہوئے ہی مرد ہ جانور کی کھال سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے امام زہری رحمۃ اللہ علیہ اور بعض شافعیوں کا یہی نظریہ ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 815