الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 95
´وضو کے لیے کتنا پانی کافی ہے؟`
«. . . عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَوَضَّأُ بِإِنَاءٍ يَسَعُ رَطْلَيْنِ وَيَغْتَسِلُ بِالصَّاعِ . . .»
”. . . انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایسے برتن سے وضو کرتے تھے جس میں دو رطل پانی آتا تھا، اور ایک صاع پانی سے غسل کرتے تھے۔ . . .“ [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 95]
فوائد ومسائل:
➊ پانی کی مذکورہ مقدار تحدید کے لیے نہیں بلکہ کفایت و ترغیب کے لیے ہے اور اشارہ ہے کہ پانی کم از کم استعمال کرنا چاہئیے، بےجا استعمال اور ضیاع ناجائز ہے۔
➋ صاع اور مد چیزوں کے بھرنے کے پیمانے ہیں۔ ایک صاع میں چار مد ہوتے ہیں اور مختلف ادوار میں ان کا پیمانہ مختلف ہوتا رہا ہے۔ موجودہ پیمانے کے معیار سے مدنی صاع کی مقدار تین لیٹر دو سو ملی لیٹر، اور ایک مد کی مقدار آٹھ سو ملی لیٹر بنتی ہے۔
ملحوظ:
دور نبوی کا مد، جس کا آخری باب میں ذکر آیا ہے، اس کا ایک نمونہ راقم مترجم کو اپنے والد گرامی مولانا ابوسعید عبدالعزیز سعیدی رحمہ اللہ سے وراثت میں ملا ہے جس کی سند تعدیل و مماثلت حضرت مولانا احمداللہ صاحب دہلوی رحمہ اللہ سے سترہ واسطوں سےحضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ تک پہنچی ہے۔ یہ دین اسلام کی حقانیت کی ایک ادنیٰ دلیل ہے کہ اس کے اصول تاحال محفوظ ہیں۔ «الحمد لله على ذلك» شرعی پیمانوں میں حرمین کے پیمانے ہی معتبر ہیں جیسے کہ سنن ابی داؤد كي حدیث:3340 میں ہے کہ «الوزن وزن أهل مكة والمكيال مكيال أهل المدينة» ”یعنی وزن اہل مکہ کا معتبر ہے اور بھرنے کا ماپ اہل مدینہ کا۔“
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 95