الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 221
´جنبی غسل کے بغیر سونا چاہے تو. . . `
«. . . ذَكَرَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ تُصِيبُهُ الْجَنَابَةُ مِنَ اللَّيْلِ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: تَوَضَّأْ وَاغْسِلْ ذَكَرَكَ، ثُمَّ نَمْ . . .»
”. . . عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا کہ مجھے رات کو جنابت لاحق ہو جاتی ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”وضو کر لو، اور اپنا عضو تناسل دھو کر سو جاؤ . . .“ [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 221]
فوائد و مسائل:
➊ ”وضو کرو، اپنی شرمگاہ دھو“ سے یہ ترتیب مراد نہیں، بلکہ پہلے استنجا کرنا اور شرمگاہ دھونا اور پھر وضو کرنا مراد ہے۔ اور یہ وضو مستحب اور تاکیدی ہے۔ علامہ ابن عبدالبر، شوکانی اور شیخ البانی وغیرہ رحمها اللہ یہی بیان کرتے ہیں۔ جبکہ اہل ظاہر اس کے وجوب کے قائل ہیں۔ علامہ ابن دقیق العید بھی اسی طرف مائل ہیں کہ اس میں امر اور شرط کے صیغے وارد ہوئے ہیں۔ بہرحال غسل مؤخر کرنا ہو تو وضو کرنے میں غفلت نہیں کرنی چاہئیے اور جنبی رہنے کو عادت بھی نہیں بنانا چاہئیے اور وضو آدھا غسل سمجھا جاتا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 221