حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، وابو كريب واللفظ لابي بكر، قال: حدثنا عبد الله بن إدريس ، عن ابيه ، عن قيس بن مسلم ، عن طارق بن شهاب ، قال: قالت اليهود لعمر " لو علينا معشر يهود نزلت هذه الآية اليوم اكملت لكم دينكم واتممت عليكم نعمتي ورضيت لكم الإسلام دينا سورة المائدة آية 3 نعلم اليوم الذي انزلت فيه، لاتخذنا ذلك اليوم عيدا، قال: فقال عمر : فقد علمت اليوم الذي انزلت فيه، والساعة واين رسول الله صلى الله عليه وسلم حين نزلت، نزلت ليلة جمع، ونحن مع رسول الله صلى الله عليه وسلم بعرفات ".حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ وَاللَّفْظُ لِأَبِي بَكْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ قَيْسِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ ، قَالَ: قَالَتْ الْيَهُودُ لِعُمَرَ " لَوْ عَلَيْنَا مَعْشَرَ يَهُودَ نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةَ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلامَ دِينًا سورة المائدة آية 3 نَعْلَمُ الْيَوْمَ الَّذِي أُنْزِلَتْ فِيهِ، لَاتَّخَذْنَا ذَلِكَ الْيَوْمَ عِيدًا، قَالَ: فَقَالَ عُمَرُ : فَقَدْ عَلِمْتُ الْيَوْمَ الَّذِي أُنْزِلَتْ فِيهِ، وَالسَّاعَةَ وَأَيْنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ نَزَلَتْ، نَزَلَتْ لَيْلَةَ جَمْعٍ، وَنَحْنُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَرَفَاتٍ ".
عبداللہ بن ادریس نے اپنے والد سے، انھوں نے قیس بن مسلم سے اور انھوں نے طارق بن شہاب سے روایت کی، کہا: یہود نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا: اگر یہ آیت ہم یہودیوں کی جماعت پر نازل ہوتی؛"آج میں نے تمہارا لیےتمہارا دین مکمل کردیا اور تم پر اپنی نعمت کا اتمام کردیا اور تمہارے لیے اسلام کو بطور دین پسند کر لیا۔"ہمیں پتہ ہوتا کہ وہ کس دن نازل ہوئی ہےتو ہم اس دن کوعید قرار دیتے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں وہ دن اور وہ گھڑی جس میں یہ آیت اتر ی تھی، اور اس کے نزول کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس جگہ تھے (سب کچھ) جانتا ہوں۔یہ (آیت) مزدلفہ کی رات (آنے والی تھی، تب) اتری تھی، اور (اس وقت) ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےساتھ عرفات میں تھے۔
حضرت طارق بن شہاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،: یہود نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا:اگر یہ آیت ہم یہودیوں کی جماعت پر نازل ہوتی؛"آج میں نے تمہارا لیےتمہارا دین مکمل کردیا اور تم پر اپنی نعمت کا اتمام کردیا اور تمہارے لیے اسلام کو بطور دین پسند کر لیا۔"ہمیں پتہ ہوتا کہ وہ کس دن نازل ہوئی ہےتو ہم اس دن کوعید قرار دیتے۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا:میں وہ دن اور وہ گھڑی جس میں یہ آیت اتر ی تھی،اور اس کے نزول کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس جگہ تھے(سب کچھ) جانتا ہوں۔یہ (آیت) مزدلفہ کی رات(آنے والی تھی،تب) اتری تھی،اور (اس وقت) ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےساتھ عرفات میں تھے۔
آية في كتابكم تقرءونها لو علينا معشر اليهود نزلت لاتخذنا ذلك اليوم عيدا قال أي آية قال اليوم أكملت لكم دينكم وأتممت عليكم نعمتي ورضيت لكم الإسلام دينا قال عمر قد عرفنا ذلك اليوم والمكان الذي نزلت فيه على النبي وهو قائم بعرفة يوم جمعة
آية في كتابكم تقرءونها لو علينا معشر اليهود نزلت لاتخذنا ذلك اليوم عيدا قال أي آية قال اليوم أكملت لكم دينكم وأتممت عليكم نعمتي ورضيت لكم الإسلام دينا قال عمر قد عرفنا ذلك اليوم والمكان الذي نزلت فيه على النبي وهو قائم بعرفة يوم جمعة
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 45
´جمعہ کا دن اور عرفہ کا دن` «. . . قَالَ: الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلامَ دِينًا سورة المائدة آية 3، قَالَ عُمَرُ: قَدْ عَرَفْنَا ذَلِكَ الْيَوْمَ وَالْمَكَانَ الَّذِي نَزَلَتْ فِيهِ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ قَائِمٌ بِعَرَفَةَ يَوْمَ جُمُعَةٍ . . .» ”. . . (سورۃ المائدہ کی یہ آیت کہ)”آج میں نے تمہارے دین کو مکمل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی اور تمہارے لیے دین اسلام پسند کیا“ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہم اس دن اور اس مقام کو (خوب) جانتے ہیں جب یہ آیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی (اس وقت) آپ صلی اللہ علیہ وسلم عرفات میں جمعہ کے دن کھڑے ہوئے تھے . . .“[صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 45]
تشریح: حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے جواب کا مطلب یہ تھا کہ جمعہ کا دن اور عرفہ کا دن ہمارے ہاں عید ہی مانا جاتا ہے اس لیے ہم بھی اس مبارک دن میں اس آیت کے نزول پر اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہیں، پھر عرفہ کے بعد والا دن عیدالاضحی ہے، اس لیے جس قدر خوشی اور مسرت ہم کو ان دنوں میں ہوتی ہے اس کا تم لوگ اندازہ اس لیے نہیں کر سکتے کہ تمہارے ہاں عید کا دن کھیل تماشے اور لہو و لعب کا دن مانا گیا ہے، اسلام میں ہر عید بہترین روحانی اور ایمانی پیغام لے کر آتی ہے۔
آیت کریمہ «الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ»[5-المائدة:3] میں دین کے اکمال کا اعلان کیا گیا ہے، ظاہر ہے کہ کامل صرف وہی چیز ہے جس میں کوئی نقص باقی نہ رہ گیا ہو، پس اسلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں کامل مکمل ہو چکا جس میں کسی تقلیدی مذہب کا وجود نہ کسی خاص امام کے مطاع مطلق کا تصور تھا۔ کوئی تیجہ، فاتحہ، چہلم کے نام سے رسم نہ تھی۔ حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی نسبتوں سے کوئی آشنا نہ تھا کیونکہ یہ بزرگ عرصہ دراز کے بعد پیدا ہوئے اور تقلیدی مذاہب کا اسلام کی چار صدیوں تک پتہ نہ تھا، اب ان چیزوں کو دین میں داخل کرنا، کسی امام بزرگ کی تقلید مطلق واجب قرار دینا اور ان بزرگوں سے یہ تقلیدی نسبت اپنے لیے لازم سمجھ لینا یہ وہ امور ہیں جن کو ہر بابصیرت مسلمان دین میں اضافہ ہی کہے گا۔ مگر صد افسوس کہ امت مسلمہ کا ایک جم غفیر ان ایجادات پر اس قدر پختگی کے ساتھ اعتقاد رکھتا ہے کہ اس کے خلاف وہ ایک حرف سننے کے لیے تیار نہیں، صرف یہی نہیں بلکہ ان ایجادات نے مسلمانوں کو اس قدر فرقوں میں تقسیم کر دیا ہے کہ اب ان کا مرکز واحد پر جمع ہونا تقریباً ناممکن نظر آ رہا ہے۔ مسلک محدثین بحمدہ تعالیٰ اس جمود اور اس اندھی تقلید کے خلاف خالص اسلام کی ترجمانی کرتا ہے جو آیت شریفہ «الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ»[5-المائدة:3] میں بتایا گیا ہے۔ تقلیدی مذہب کے بارے میں کسی صاحب بصیرت نے خوب کہا ہے: دین حق را چار مذہب ساختد رخنہ در دین نبی اند اختد یعنی لوگوں نے دین حق جو ایک تھا، اس کے چار مذہب بنا ڈالے، اس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دین میں رخنہ ڈال دیا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 45
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 45
´جمعہ کا دن اور عرفہ کا دن` «. . . قَالَ: الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلامَ دِينًا سورة المائدة آية 3، قَالَ عُمَرُ: قَدْ عَرَفْنَا ذَلِكَ الْيَوْمَ وَالْمَكَانَ الَّذِي نَزَلَتْ فِيهِ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ قَائِمٌ بِعَرَفَةَ يَوْمَ جُمُعَةٍ . . .» ”. . . (سورۃ المائدہ کی یہ آیت کہ)”آج میں نے تمہارے دین کو مکمل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی اور تمہارے لیے دین اسلام پسند کیا“ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہم اس دن اور اس مقام کو (خوب) جانتے ہیں جب یہ آیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی (اس وقت) آپ صلی اللہ علیہ وسلم عرفات میں جمعہ کے دن کھڑے ہوئے تھے . . .“[صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 45]
تشریح: حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے جواب کا مطلب یہ تھا کہ جمعہ کا دن اور عرفہ کا دن ہمارے ہاں عید ہی مانا جاتا ہے اس لیے ہم بھی اس مبارک دن میں اس آیت کے نزول پر اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہیں، پھر عرفہ کے بعد والا دن عیدالاضحی ہے، اس لیے جس قدر خوشی اور مسرت ہم کو ان دنوں میں ہوتی ہے اس کا تم لوگ اندازہ اس لیے نہیں کر سکتے کہ تمہارے ہاں عید کا دن کھیل تماشے اور لہو و لعب کا دن مانا گیا ہے، اسلام میں ہر عید بہترین روحانی اور ایمانی پیغام لے کر آتی ہے۔
آیت کریمہ «الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ»[5-المائدة:3] میں دین کے اکمال کا اعلان کیا گیا ہے، ظاہر ہے کہ کامل صرف وہی چیز ہے جس میں کوئی نقص باقی نہ رہ گیا ہو، پس اسلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں کامل مکمل ہو چکا جس میں کسی تقلیدی مذہب کا وجود نہ کسی خاص امام کے مطاع مطلق کا تصور تھا۔ کوئی تیجہ، فاتحہ، چہلم کے نام سے رسم نہ تھی۔ حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی نسبتوں سے کوئی آشنا نہ تھا کیونکہ یہ بزرگ عرصہ دراز کے بعد پیدا ہوئے اور تقلیدی مذاہب کا اسلام کی چار صدیوں تک پتہ نہ تھا، اب ان چیزوں کو دین میں داخل کرنا، کسی امام بزرگ کی تقلید مطلق واجب قرار دینا اور ان بزرگوں سے یہ تقلیدی نسبت اپنے لیے لازم سمجھ لینا یہ وہ امور ہیں جن کو ہر بابصیرت مسلمان دین میں اضافہ ہی کہے گا۔ مگر صد افسوس کہ امت مسلمہ کا ایک جم غفیر ان ایجادات پر اس قدر پختگی کے ساتھ اعتقاد رکھتا ہے کہ اس کے خلاف وہ ایک حرف سننے کے لیے تیار نہیں، صرف یہی نہیں بلکہ ان ایجادات نے مسلمانوں کو اس قدر فرقوں میں تقسیم کر دیا ہے کہ اب ان کا مرکز واحد پر جمع ہونا تقریباً ناممکن نظر آ رہا ہے۔ مسلک محدثین بحمدہ تعالیٰ اس جمود اور اس اندھی تقلید کے خلاف خالص اسلام کی ترجمانی کرتا ہے جو آیت شریفہ «الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ»[5-المائدة:3] میں بتایا گیا ہے۔ تقلیدی مذہب کے بارے میں کسی صاحب بصیرت نے خوب کہا ہے: دین حق را چار مذہب ساختد رخنہ در دین نبی اند اختد یعنی لوگوں نے دین حق جو ایک تھا، اس کے چار مذہب بنا ڈالے، اس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دین میں رخنہ ڈال دیا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 45
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7526
1
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: عرفہ کے دن شام کا وقت ہوگا، اس لیے اس کو ليلة مزدلفه سے تعبیر کردیا، وگرنہ سورج کے غروب ہوجانے کے بعد عرفات سے کوچ شروع ہو جاتا ہے اور مغرب کی نماز مزدلفہ میں آکر پڑھی جاتی ہے اور یہ بات کہنے والے کعب احبار اور ان کے ساتھی تھے، کعب احبار بعد میں مسلمان ہوگئے تھے۔