الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3113
´مستحب ہے کہ انسان موت کے وقت اللہ تعالیٰ سے اچھا گمان رکھے۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی وفات سے تین دن پہلے فرماتے ہوئے سنا: ”تم میں سے ہر شخص اس حال میں مرے کہ وہ اللہ سے اچھی امید رکھتا ہو ۱؎۔“ [سنن ابي داود/كتاب الجنائز /حدیث: 3113]
فوائد ومسائل:
عمدہ گمان ظاہر بات ہے وہی کر سکتا ہے۔
جس نے مومنانہ اور صالحانہ زندگی گزاری ہو ایک غیر مومنانہ اور غیر صالحانہ زندگی گزارنے والا کا حسن ظن ایسا ہی ہوگا۔
جیسے تخم حنظل بوکر شیریں اور خوش ذائقہ پھلوں کی امید رکھنا اس لئے مسئلہ تو یہی ہے انسان اپنے اللہ کے ساتھ ہمیشہ ہی عمدہ اور بہترین گمان رکھنا چاہیے۔
کہ وہ اس کے ساتھ ظاہری باطنی اوردنیاوآخرت کے تمام امور میں اچھا معاملہ فرمائے گا۔
مگرشرط یہ ہے کہ بتقاضائے شریعت اس کی واقعی بنیاد بھی ہو یعنی ایمان۔
تقویٰ اورعمل صالح سے مزین ہو۔
اس سے اعراض کرکے یا عناد کا رویہ رکھ کر اللہ تعالیٰ پر تمنایئں باندھنا سراسر دھوکا ہے۔
لیکن پھر بھی اللہ رب العالمین ہے۔
اس کے اپنے فیصلے ہیں۔
قرآن وسنت سے ہٹ کر کسی کے متعلق حتمی طور پرکچھ کہنا روا نہیں ہے بہرحال مومن کو امید اور خوف دونوں پہلووں کو پیش نظر رکھتے ہوئے زندگی گزارنی چاہیے۔
صحت وعافیت کے دنوں میں خوف کا پہلو کسی قدرغالب رہے تو اچھا ہے لیکن بوقت رحلت امید کا پہلو غالب رکھنا چاہیے۔
کہ وہ الرحمٰن الرحیم اپنے خاص فضل سے عفووستر کا معاملہ فرمائے گا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3113
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3113
´مستحب ہے کہ انسان موت کے وقت اللہ تعالیٰ سے اچھا گمان رکھے۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی وفات سے تین دن پہلے فرماتے ہوئے سنا: ”تم میں سے ہر شخص اس حال میں مرے کہ وہ اللہ سے اچھی امید رکھتا ہو ۱؎۔“ [سنن ابي داود/كتاب الجنائز /حدیث: 3113]
فوائد ومسائل:
عمدہ گمان ظاہر بات ہے وہی کر سکتا ہے۔
جس نے مومنانہ اور صالحانہ زندگی گزاری ہو ایک غیر مومنانہ اور غیر صالحانہ زندگی گزارنے والا کا حسن ظن ایسا ہی ہوگا۔
جیسے تخم حنظل بوکر شیریں اور خوش ذائقہ پھلوں کی امید رکھنا اس لئے مسئلہ تو یہی ہے انسان اپنے اللہ کے ساتھ ہمیشہ ہی عمدہ اور بہترین گمان رکھنا چاہیے۔
کہ وہ اس کے ساتھ ظاہری باطنی اوردنیاوآخرت کے تمام امور میں اچھا معاملہ فرمائے گا۔
مگرشرط یہ ہے کہ بتقاضائے شریعت اس کی واقعی بنیاد بھی ہو یعنی ایمان۔
تقویٰ اورعمل صالح سے مزین ہو۔
اس سے اعراض کرکے یا عناد کا رویہ رکھ کر اللہ تعالیٰ پر تمنایئں باندھنا سراسر دھوکا ہے۔
لیکن پھر بھی اللہ رب العالمین ہے۔
اس کے اپنے فیصلے ہیں۔
قرآن وسنت سے ہٹ کر کسی کے متعلق حتمی طور پرکچھ کہنا روا نہیں ہے بہرحال مومن کو امید اور خوف دونوں پہلووں کو پیش نظر رکھتے ہوئے زندگی گزارنی چاہیے۔
صحت وعافیت کے دنوں میں خوف کا پہلو کسی قدرغالب رہے تو اچھا ہے لیکن بوقت رحلت امید کا پہلو غالب رکھنا چاہیے۔
کہ وہ الرحمٰن الرحیم اپنے خاص فضل سے عفووستر کا معاملہ فرمائے گا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3113