● صحيح البخاري | 6030 | عائشة بنت عبد الله | أولم تسمعي ما قلت رددت عليهم فيستجاب لي فيهم ولا يستجاب لهم في |
● صحيح البخاري | 6927 | عائشة بنت عبد الله | الله رفيق يحب الرفق في الأمر كله قلت أولم تسمع ما قالوا قال قلت وعليكم |
● صحيح البخاري | 6024 | عائشة بنت عبد الله | السام عليكم قالت عائشة ففهمتها فقلت وعليكم السام واللعنة الله يحب الرفق في الأمر كله فقلت يا رسول الله أولم تسمع ما قالوا قال رسول الله |
● صحيح البخاري | 2935 | عائشة بنت عبد الله | السام عليك فلعنتهم فقال ما لك قلت أولم تسمع ما قالوا قال فلم تسمعي ما قلت وعليكم |
● صحيح البخاري | 6401 | عائشة بنت عبد الله | عليك بالرفق إياك والعنف أو الفحش رددت عليهم فيستجاب لي فيهم ولا يستجاب لهم في |
● صحيح البخاري | 6395 | عائشة بنت عبد الله | الله يحب الرفق في الأمر كله أرد ذلك عليهم فأقول وعليكم |
● صحيح البخاري | 6256 | عائشة بنت عبد الله | الله يحب الرفق في الأمر كله قلت وعليكم |
● صحيح مسلم | 5658 | عائشة بنت عبد الله | وعليكم قالت عائشة قلت بل عليكم السام والذام لا تكوني فاحشة |
● صحيح مسلم | 6602 | عائشة بنت عبد الله | الرفق لا يكون في شيء إلا زانه لا ينزع من شيء إلا شانه |
● صحيح مسلم | 6601 | عائشة بنت عبد الله | الله رفيق يحب الرفق يعطي على الرفق ما لا يعطي على العنف وما لا يعطي على ما سواه |
● صحيح مسلم | 5656 | عائشة بنت عبد الله | الله يحب الرفق في الأمر كله قلت وعليكم |
● جامع الترمذي | 2701 | عائشة بنت عبد الله | الله يحب الرفق في الأمر كله ألم تسمع ما قالوا قال قد قلت عليكم |
● سنن أبي داود | 2478 | عائشة بنت عبد الله | ارفقي فإن الرفق لم يكن في شيء قط إلا زانه لا نزع من شيء قط إلا شانه |
● سنن أبي داود | 4808 | عائشة بنت عبد الله | ارفقي فإن الرفق لم يكن في شيء قط إلا زانه لا نزع من شيء قط إلا شانه |
● سنن ابن ماجه | 3698 | عائشة بنت عبد الله | السام عليك يا أبا القاسم فقال وعليكم |
● سنن ابن ماجه | 3689 | عائشة بنت عبد الله | الله رفيق يحب الرفق في الأمر كله |
● المعجم الصغير للطبراني | 1004 | عائشة بنت عبد الله | الله رفيق يحب الرفق في الأمر كله |
● مسندالحميدي | 250 | عائشة بنت عبد الله | عليكم |
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3689
´نرمی اور ملائمیت کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک اللہ نرمی کرنے والا ہے اور سارے کاموں میں نرمی کو پسند کرتا ہے۔“ [سنن ابن ماجه/كتاب الأدب/حدیث: 3689]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
دعوت و تبلیغ میں نرمی کا انداز نہایت مفید ہے، تاہم درست موقف میں نرمی پیدا کر لینا باطل کو قبول کرنے کے مترادف ہے۔
جن معاملات میں شریعت میں آسانی ہے ان میں خواہ مخواہ سخت پہلو اختیار کرنا بھی غلط ہے اور اس پر اصرار کرنا مزید غلطی ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 3689
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2701
´ذمیوں سے سلام کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ کچھ یہودیوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: «السّام عليك» ”تم پر موت و ہلاکت آئے“، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا: «عليكم» ۱؎، عائشہ نے (اس پر دو لفظ بڑھا کر) کہا «بل عليكم السام واللعنة» ”بلکہ تم پر ہلاکت اور لعنت ہو۔“ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عائشہ! اللہ تعالیٰ ہر معاملے میں رفق، نرم روی اور ملائمیت کو پسند کرتا ہے“، عائشہ رضی الله عنہا نے کہا: کیا آپ نے سنا نہیں؟ انہوں نے کیا کہا ہے؟۔ آپ نے فرمایا: ”تبھی تو میں نے «عليكم» کہا ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الاستئذان والآداب/حدیث: 2701]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
گویا آپﷺ نے «عليكم» کہہ کر یہود کی بد دعا خود انہیں پر لوٹا دی۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 2701
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2478
´ہجرت کا ذکر اور صحراء و بیابان میں رہائش کا بیان۔`
شریح کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے صحراء و بیابان (میں زندگی گزارنے) کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان ٹیلوں پر جایا کرتے تھے، آپ نے ایک بار صحراء میں جانے کا ارادہ کیا تو میرے پاس صدقہ کے اونٹوں میں سے ایک اونٹ بھیجا جس پر سواری نہیں ہوئی تھی، اور مجھ سے فرمایا: ”عائشہ! اس کے ساتھ نرمی کرنا کیونکہ جس چیز میں بھی نرمی ہوتی ہے وہ اسے عمدہ اور خوبصورت بنا دیتی ہے، اور جس چیز سے بھی نرمی چھین لی جائے تو وہ اسے عیب دار کر دیتی ہے۔“ [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2478]
فوائد ومسائل:
1۔
اس روایت کا پہلا حصہ (ھذہ التلاع) صحیح ثابت نہیں۔
(علامہ البانی) تاہم تدبر فی الانفس کی نیت سے آدمی کس وقت عزلت وتنہائی اختیار کرلے تو مفید ہے۔
جس کی صورت اعتکاف ہے۔
نہ کہ صوفیاء کی سیاحت۔
2۔
جب حیوانات سے نرم خوئی ممدوح اور مطلوب ہے۔
تو انسانوں سے یہ معاملہ اور بھی زیادہ باعث اجر وثواب ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2478
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6601
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
بعض لوگ اپنے معاملہ اور برتاؤ میں سخت گیر ہوتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ آدمی سخت گیری سے وہ کچھ حاصل کر لیتا ہے،
جو نرمی سے حاصل نہیں ہو سکتا،
گویا ان کے نزدیک درشتی اور سختی اور دشوار پسندی کار برآری کا ذریعہ اور حصول مقاصد کی کنجی ہے،
آپ نے اس کی اصلاح فرماتے ہوئے،
پہلے تو نرم خوئی کی عظمت اور صفت بیان فرمائی ہے کہ وہ اللہ کی ذاتی صفت ہے،
اس کے بعد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کو یہ محبوب ہے کہ اس کے بندے بھی باہمی معاملہ اور برتاؤ میں نرمی اپنائیں،
پھر بتایا کہ مقاصد کا پورا ہونا یا نہ ہونا اور کسی چیز کا ملنا یا نہ ملنا تو اللہ تعالیٰ کی مشیت پر موقوف ہے،
جو کچھ ہوتا ہے،
اس کے فیصلہ اور مشیت سے ہوتا ہے اور اس کا ضابطہ یہ ہے کہ وہ نرمی پر اس قدر دیتا ہے،
جس قدر درشتی اور سختی پر نہیں دیتا بلکہ نرمی کے علاوہ کسی چیز پر بھی اتنا نہیں دیتا جس قدر نرمی پر دیتا ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 6601