25. باب فِي صِفَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَّهُ كَانَ أَحْسَنَ النَّاسِ وَجْهًا:
25. باب: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صفت کا بیان، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ انور سب سے زیادہ حسین ہے۔
Chapter: Description Of The Prophet (SAW); He Was The Most Handsome Of People
● صحيح البخاري | 3551 | براء بن عازب | مربوعا بعيد ما بين المنكبين له شعر يبلغ شحمة أذنه رأيته في حلة حمراء لم أر شيئا قط أحسن منه |
● صحيح البخاري | 5848 | براء بن عازب | كان مربوعا وقد رأيته في حلة حمراء ما رأيت شيئا أحسن منه |
● صحيح البخاري | 5901 | براء بن عازب | ما رأيت أحدا أحسن في حلة حمراء من النبي جمته لتضرب قريبا من منكبيه |
● صحيح مسلم | 6064 | براء بن عازب | رجلا مربوعا بعيد ما بين المنكبين عظيم الجمة إلى شحمة أذنيه عليه حلة حمراء ما رأيت شيئا قط أحسن منه |
● صحيح مسلم | 6065 | براء بن عازب | ما رأيت من ذي لمة أحسن في حلة حمراء من رسول الله شعره يضرب منكبيه بعيد ما بين المنكبين ليس بالطويل ولا بالقصير |
● جامع الترمذي | 2811 | براء بن عازب | رأيت على رسول الله حلة حمراء |
● جامع الترمذي | 3635 | براء بن عازب | له شعر يضرب منكبيه بعيد ما بين المنكبين لم يكن بالقصير ولا بالطويل |
● جامع الترمذي | 1724 | براء بن عازب | ما رأيت من ذي لمة في حلة حمراء أحسن من رسول الله له شعر يضرب منكبيه بعيد ما بين المنكبين لم يكن بالقصير ولا بالطويل |
● سنن أبي داود | 4072 | براء بن عازب | له شعر يبلغ شحمة أذنيه رأيته في حلة حمراء لم أر شيئا قط أحسن منه |
● سنن أبي داود | 4183 | براء بن عازب | ما رأيت من ذي لمة أحسن في حلة حمراء من رسول الله |
● سنن أبي داود | 4184 | براء بن عازب | له شعر يبلغ شحمة أذنيه |
● سنن النسائى الصغرى | 5235 | براء بن عازب | ما رأيت من ذي لمة أحسن في حلة من رسول الله له شعر يضرب منكبيه |
● سنن النسائى الصغرى | 5065 | براء بن عازب | ما رأيت رجلا أحسن في حلة من رسول الله له لمة تضرب قريبا من منكبيه |
● سنن النسائى الصغرى | 5234 | براء بن عازب | رجلا مربوعا عريض ما بين المنكبين كث اللحية تعلوه حمرة جمته إلى شحمتي أذنيه رأيته في حلة حمراء ما رأيت أحسن منه |
● سنن النسائى الصغرى | 5063 | براء بن عازب | ما رأيت أحدا أحسن في حلة حمراء من رسول الله وجمته تضرب منكبيه |
● سنن النسائى الصغرى | 5316 | براء بن عازب | رأيت النبي وعليه حلة حمراء مترجلا لم أر قبله ولا بعده أحدا هو أجمل منه |
● سنن ابن ماجه | 3599 | براء بن عازب | ما رأيت أجمل من رسول الله مترجلا في حلة حمراء |
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3599
´مردوں کے سرخ لباس پہننے کا بیان۔`
براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ خوبصورت بال جھاڑے اور سنوارے ہوئے سرخ جوڑے میں ملبوس کسی کو نہیں دیکھا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب اللباس/حدیث: 3599]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
امام ابن قیم رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
حلھ کا مطلب تہبند اور اوڑھنے والی چادر ہے اور حلھ کا لفظ ان دونوں کے مجموعے پر بولا جاتا ہے۔
یہ سمجھنا غلط فہمی ہے کہ یہ جوڑا خالص سرخ رنگ کا تھا اورا س میں دوسرا رنگ شامل نہیں تھا۔
سرخ حلے سے مراد یمن کی دو چادریں ہوتی ہیں جو سرخ اور سیاہ دھاریوں کی صورت میں بنی ہوتی ہیں جس طرح یمن کی دوسری چادریں (لکیر دار)
ہوتی ہیں۔
یہ لباس اس نام (سرخ حلہ)
سے ان سرخ دھاریوں کی وجہ سے مشہور ہے ورنہ خالص سرخ (لباس)
سے تو سختی سے منع کیا گیا ہے البتہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے (صحیح البخاري، کتاب الصلاة، باب الصلاۃ فی الثوب الأحمر حدیث: 376)
میں ذکر کردہ حدیث کی شرح کرتے ہوئے لکھا ہے:
امام بخاری رحمہ اللہ اس عنوان کے ذریعے سے (سرخ کپڑا پہننے کے)
جواز کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں۔
گویا خالص سرخ رنگ کا جوڑا پہننا بھی مردوں کے لئے جائز ہے لیکن اگر کسی علاقے میں یہ رنگ عورتوں کے لئے مخصوص ہو چکا ہو تو پھر اس علاقے میں مردوں کے لئے اس سے اجتناب بہتر ہوگا کیونکہ عورتوں کی مشابہت اختیار کرنا بھی ممنوع ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 3599
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1724
´مردوں کے لیے سرخ کپڑا پہننے کے جواز کا بیان۔`
براء رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے سرخ جوڑے میں کسی لمبے بال والے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خوبصورت نہیں دیکھا، آپ کے بال شانوں کو چھوتے تھے، آپ کے شانوں کے درمیان دوری تھی، آپ نہ کوتاہ قد تھے اور نہ لمبے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب اللباس/حدیث: 1724]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
سرخ لباس کی بابت حالات و ظروف کی رعایت ضروری ہے،
اگر یہ عورتوں کا مخصوص زیب وزینت والا لباس ہے جیسا کہ آج کے اس دور میں شادی کے موقع پر سرخ جوڑا دلہن کو خاص طور سے دیا جاتا ہے تو مردوں کا اس سے بچنا بہتر ہے،
خود نبی اکرم ﷺ کے اس سرخ جوڑے کے بارے میں اختلاف ہے کہ وہ کیسا تھا؟ خلاصہ اقوال یہ ہے کہ یہ سرخ جوڑا یا دیگر لال لباس جو آپ ﷺ پہنے تھے،
ان میں تانا اور بانا میں رنگوں کا اختلاف تھا،
بالکل خالص لال رنگ کے وہ جوڑے نہیں تھے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1724
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4072
´لال رنگ کا استعمال جائز ہے۔`
براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال آپ کے دونوں کانوں کی لو تک پہنچتے تھے، میں نے آپ کو ایک سرخ جوڑے میں دیکھا اس سے زیادہ خوبصورت میں نے کوئی چیز کبھی نہیں دیکھی۔ [سنن ابي داود/كتاب اللباس /حدیث: 4072]
فوائد ومسائل:
نیچے آنے والی حدیث میں وضاحت ہے کہ آپ کا یہ سرخ جوڑا خالص سرخ رنگ کا تعلق نہیں تھا، بلکہ اس میں سرخ رنگ کی دھاریاں تھیں جسے برد کہا جاتا ہے۔
علامہ ابن القیم رحمتہ نے زادالمعاد میں اس کی یہی توجیہ پیش کی ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4072