حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 566
´مال غنیمت کا بیان`
«. . . 213- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم بعث سرية فيها عبد الله بن عمر قبل نجد، فغنموا إبلا كثيرة، فكانت سهمانهم اثني عشر بعيرا أو أحد عشر بعيرا ونفلوا بعيرا بعيرا. . . .»
”. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجد کی طرف (مجاہدین کا) ایک دستہ روانہ کیا جس میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی تھے۔ پھر انہیں مال غنیمت میں بہت سے اونٹ ملے تو ہر آدمی کے حصے میں بارہ بارہ یا گیارہ گیارہ اونٹ آئے پھر ہر ایک کو ایک ایک اونٹ زائد دیا گیا . . .“ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 566]
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 3134، ومسلم 35/1749، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ اگر امیر المؤمنین یا ان کا مامور خُمس نکالنے کے بعد مالِ غنیمت یا اس میں سے کچھ اپنے لشکر میں تقسیم کردے تو لشکر والوں کے لئے یہ حلال ہے۔
➋ اگر کفار کی طرف سے حملے کا خطرہ ہو تو خلیفہ کے حکم سے جہادِ تقدیم کے طور پر حملہ کیا جا سکتا ہے۔
➌ کفار سے حالت جنگ میں جو مال ملے اسے مال غنیمت کہتے ہیں۔
➍ سعید بن المسیب رحمہ اللہ فرماتے تھے: لوگ جب میدانِ جہاد میں مالِ غنیمت کی تقسیم کرتے تو ایک اونٹ دس بکریوں کے برابر قرار دیتے تھے۔ [الموطأ 2/450 ح1001، وسنده صحيح]
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 213