الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2203
´عورت کو طلاق کا اختیار دینے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں (اپنے عقد میں رہنے یا نہ رہنے کا) اختیار دیا تو ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو اختیار کیا، پھر آپ نے اسے کچھ بھی شمار نہیں کیا ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2203]
فوائد ومسائل:
1۔
اگر شوہر بیوی سے کہے مجھے اختیار کرلو یا اپنے آپ کو یا تمہیں اختیار ہے وغیرہ۔
اور نیت طلاق کی ہو۔
۔
۔
۔
۔
پھر اگر بیوی نے اپنے آپ کو اختیار کرلیا تو طلاق ہو جائے گی۔
اور اگر شوہر کو اختیار کرلے تو نہیں ہوگی۔
2۔
فتوحات کے نتیجے میں جب مسلمانوں کی مالی حالت پہلے کی نسبت کچھ بہتر ہوگئی تو انصا رومہاجرین کی عورتوں کو دیکھ کر ازواج مطہرات نے بھی نان و نفقہ میں اضافہ کا مطالبہ کر دیا۔
نبیﷺ چونکہ نہایت سادگی پسند تھے اس لیے ازواج مطہرات کے اس مطالبے پر سخت کبیدہ خاطر ہوئےاور بیویوں سے علیحدگی اختیار کرلی جو ایک مہینے تک جاری رہی۔
بالآخر اللہ تعالی نےیہ آیت نازل فرمائی: (يَاأَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ إِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا فَتَعَالَيْنَ أُمَتِّعْكُنَّ وَأُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيلًا (28) وَإِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالدَّارَ الْآخِرَةَ فَإِنَّ اللَّهَ أَعَدَّ لِلْمُحْسِنَاتِ مِنْكُنَّ أَجْرًا عَظِيمًا) (الاحزاب:28-29) اس کے بعد نبی ﷺ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کو یہ آیت سنا کر انہیں اختیار دیا۔
تاہم انہیں کہا کہ اپنے طور پر فیصلہ کرنے کے بجائے اپنے والدین سے مشورے کے بعد کوئی اقدام کرنا۔
حضرت عائشہ نے کہا: یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ میں آپ کے بارے میں مشورہ کروں۔
بلکہ میں اللہ اور اس کے رسول کو اختیار کرتی ہوں۔
یہی بات دیگر ازواج مطہرات نے بھی کہی اور کسی نے بھی رسول اللہﷺ کو چھوڑ کر دنیا کے عیش وآرام کو ترجیح نہیں دی۔
(صحیح بخاری تفسیر سورہ احزاب۔
ماخوذ از تفسیراحسن البیان)
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2203