12. باب بَيَانِ أَنَّ الْقُبْلَةَ فِي الصَّوْمِ لَيْسَتْ مُحَرَّمَةً عَلَى مَنْ لَمْ تُحَرِّكْ شَهْوَتَهُ:
12. باب: روزہ میں اپنی بیوی کا بوسہ لینا حرام نہیں بشرطیکہ شہوت نہ ہو۔
Chapter: Clarifying that Kissing when fasting is not unlawful for the one whose desire is not provoked by that
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بوسہ لیتے تھے اور وہ روزے سے تھے اور اپنی حاجت کو خوب قابو میں رکھنے والے تھے۔
● صحيح البخاري | 1927 | عائشة بنت عبد الله | يقبل ويباشر وهو صائم أملككم لإربه |
● صحيح البخاري | 1928 | عائشة بنت عبد الله | يقبل بعض أزواجه وهو صائم |
● صحيح مسلم | 2576 | عائشة بنت عبد الله | يقبل وهو صائم يباشر وهو صائم أملككم لإربه |
● صحيح مسلم | 2577 | عائشة بنت عبد الله | يقبل وهو صائم أملككم لإربه |
● صحيح مسلم | 2578 | عائشة بنت عبد الله | يباشر وهو صائم |
● صحيح مسلم | 2579 | عائشة بنت عبد الله | يباشر وهو صائم نعم أملككم لإربه |
● صحيح مسلم | 2581 | عائشة بنت عبد الله | يقبلها وهو صائم |
● صحيح مسلم | 2574 | عائشة بنت عبد الله | يقبلها وهو صائم فسكت ساعة ثم قال نعم |
● صحيح مسلم | 2584 | عائشة بنت عبد الله | يقبل في رمضان وهو صائم |
● صحيح مسلم | 2585 | عائشة بنت عبد الله | يقبل وهو صائم |
● صحيح مسلم | 2583 | عائشة بنت عبد الله | يقبل في شهر الصوم |
● صحيح مسلم | 2573 | عائشة بنت عبد الله | يقبل إحدى نسائه وهو صائم ثم تضحك |
● صحيح مسلم | 2575 | عائشة بنت عبد الله | يقبلني وهو صائم أيكم يملك إربه كما كان رسول الله |
● جامع الترمذي | 728 | عائشة بنت عبد الله | يباشرني وهو صائم أملككم لإربه |
● جامع الترمذي | 729 | عائشة بنت عبد الله | يقبل ويباشر وهو صائم أملككم لإربه |
● جامع الترمذي | 727 | عائشة بنت عبد الله | يقبل في شهر الصوم |
● سنن أبي داود | 2386 | عائشة بنت عبد الله | يقبلها وهو صائم ويمص لسانها |
● سنن أبي داود | 2384 | عائشة بنت عبد الله | يقبلني وهو صائم وأنا صائمة |
● سنن أبي داود | 2383 | عائشة بنت عبد الله | يقبل في شهر الصوم |
● سنن أبي داود | 2382 | عائشة بنت عبد الله | يقبل وهو صائم ويباشر وهو صائم أملك لإربه |
● سنن النسائى الصغرى | 1653 | عائشة بنت عبد الله | يمتنع من وجهي وهو صائم ما مات حتى كان أكثر صلاته وهو جالس |
● سنن ابن ماجه | 1683 | عائشة بنت عبد الله | يقبل في شهر الصوم |
● سنن ابن ماجه | 1687 | عائشة بنت عبد الله | أملككم لإربه |
● سنن ابن ماجه | 1684 | عائشة بنت عبد الله | يقبل وهو صائم أيكم يملك إربه كما كان رسول الله |
● بلوغ المرام | 539 | عائشة بنت عبد الله | يقبل وهو صائم ويباشر وهو صائم ولكنه كان املككم لإربه |
● المعجم الصغير للطبراني | 368 | عائشة بنت عبد الله | يصيب من وجهها وهو صائم |
● المعجم الصغير للطبراني | 373 | عائشة بنت عبد الله | يباشر وهو صائم ، وأيكم يملك من إربه ما كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يملك ؟ |
● المعجم الصغير للطبراني | 382 | عائشة بنت عبد الله | باشرني رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو صائم |
● المعجم الصغير للطبراني | 402 | عائشة بنت عبد الله | يمتنع من شيء من وجهي وهو صائم |
● مسندالحميدي | 198 | عائشة بنت عبد الله | أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يقبلها وهو صائم؟ |
● مسندالحميدي | 199 | عائشة بنت عبد الله | كان يقبل بعض نسائه وهو صائم |
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1687
´روزہ دار کا بیوی سے مباشرت (ساتھ سونے) کا بیان۔`
اسود اور مسروق ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے، اور پوچھا کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزے کی حالت میں مباشرت کرتے (ساتھ سوتے) تھے؟، انہوں نے کہا: ہاں، آپ ایسا کرتے تھے، اور آپ تم سب سے زیادہ اپنی خواہش پر قابو رکھنے والے آدمی تھے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1687]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مرد قابل احترام خاتون سے اور عورتیں قابل احترام مرد سے ادب واحترام کا لحاظ رکھتے ہوئے شرم وحیا سے تعلق رکھنے والے معاملات کے مسائل دریافت کریں تو کوئی حرج نہیں۔
(2)
اس قسم کے مسائل پوچھتے اور بتاتے ہوئے الفاظ کے انتخاب میں احتیاط سے کام لینا چاہے تاکہ مسئلہ بھی معلوم ہوجائے اور فحش گوئی بھی نہ ہو۔
(3)
مباشرت سے مراد بوس وکنار اور معانقہ وغیرہ جیسے معاملات ہیں۔
(4)
یہ جواز اس شخص کے لئے ہے۔
جسے اپنی ذات پر اعتماد ہو کہ جائز حد سے تجاوز نہیں کرے گا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1687
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 539
´(روزے کے متعلق احادیث)`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزے کی حالت میں اپنی بیوی کا بوسہ لے لیتے تھے اور معانقہ بھی فرما لیتے تھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمہاری نسبت اپنی طبیعت پر زیادہ کنٹرول اور ضبط کرنے والے تھے۔ (بخاری و مسلم) یہ الفاظ مسلم کے ہیں اور ایک روایت میں اتنا اضافہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دونوں فعل رمضان میں کرتے تھے۔ [بلوغ المرام/حدیث: 539]
لغوی تشریح 539:
یُقَبَّلُ تَقبِیل سے ماخوذ ہے۔ بوسہ دینا۔
یُبَاشِرُ میاں بیوی کا ایک دوسرے کے جسم سے جسم ملانا، بغل گیر ہونا۔ اس سے جماع مراد نہیں ہے۔
لِأِربَہ ”ہمزہ“ اور ”را“ دونوں پر فتحہ بھی پڑھا گیا ہے، یعنی حاجت، خواہش نفس (میاں بیوی کا صنفی تعلق)۔ اور ایک قول کے مطابق ”ہمزہ“ کے نیچے کسرہ اور ”را“ ساکن ہے۔ اس صورت میں دو احتمال ہیں: اس سے مراد حاجت ہے یا عضو مخصوص، یعنی اپنے جذبات پر یا اپنی شرمگاہ پر تمھاری نسبت خوب ضبط رکھنے والے تھے۔ اس حدیث کی رو سے بوسہ اور مباشرت جسمانی ایسے آدمی کے لیے مباح ہے جو اپنے آپ پر ق ابواور کنٹرول رکھنے کا حوصلہ اور طاقت رکھتا ہو۔ یہ رعایت ایسے آدمی کے لیے نہیں جسے اپنے نفس پر پورا کنٹرول نہ ہو۔ یہ قول اس مسئلے میں تمام اقوال و آراء سے زیادہ مناسب اور مبنی برعدل ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 539
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 727
´روزہ دار کے بوسہ لینے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ماہ صیام (رمضان) میں بوسہ لیتے تھے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام/حدیث: 727]
اردو حاشہ:
1؎:
اس حدیث سے روزے کی حالت میں بوسہ کا جواز ثابت ہوتا ہے،
اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اس میں فرض اور نفل روزے کی تفریق صحیح نہیں،
رمضان کے روزے کی حالت میں بھی بوسہ لیا جا سکتا ہے،
لیکن یہ ایسے شخص کے لیے ہے جو اپنے آپ کو کنٹرول میں رکھتا ہو اور جسے اپنے نفس پر قابو نہ ہو اس کے لیے یہ رعایت نہیں۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 727
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2384
´روزہ دار بیوی کا بوسہ لے اس کے حکم کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرا بوسہ لیتے اور آپ روزے سے ہوتے اور میں بھی روزے سے ہوتی۔ [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2384]
فوائد ومسائل:
(1) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ بات صحیح احادیث میں بھی بیان ہوئی ہے، اسی لیے شیخ البانی رحمة اللہ علیہ نے اسے صحیح کہا ہے۔
میاں بیوی کے لیے روزے کی حالت میں بوس و کنار جائز ہے مگر لازمی ہے کہ اپنے جذبات پر ضبط رکھنے والے ہوں۔
اگر حد سے بڑھنے کا اندیشہ ہو تو اس عمل سے بچنا لازمی ہے۔
(2) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا اپنے ان مخفی امور کو ذکر کرنا شرعی ضرورت کی بنا پر ہے۔
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کثرت ازدواج کی ایک حکمت یہ بھی رہی ہے کہ زوجین اور اندرون خانہ کی شرعی زندگی امت کے سامنے آئے اور ان کے لیے ہدایت اور اسوہ ثابت ہو۔
اگر یہ حقائق بیان نہ ہوتے تو دین کا بڑا حصہ ہم سے اوجھل رہتا اور بڑی آزمائش ہوتی۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2384