15. باب فَضْلِ السُّنَنِ الرَّاتِبَةِ قَبْلَ الْفَرَائِضِ وَبَعْدَهُنَّ وَبَيَانِ عَدَدِهِنَّ:
15. باب: سنتوں کی فضیلت اور ان کی گنتی کا بیان فرضوں سے پہلے اور ان کے بعد۔
Chapter: The virtue of the regular sunnah prayers before and after the obligatory prayers, and their numbers
● سنن النسائى الصغرى | 1797 | رملة بنت صخر | من ركع ثنتي عشرة ركعة في يومه وليلته سوى المكتوبة بنى الله له بها بيتا في الجنة |
● سنن النسائى الصغرى | 1798 | رملة بنت صخر | من ركع اثنتي عشرة ركعة في اليوم والليلة سوى المكتوبة بنى الله له بيتا في الجنة |
● سنن النسائى الصغرى | 1799 | رملة بنت صخر | من صلى في يوم ثنتي عشرة ركعة بنى الله له بيتا في الجنة |
● سنن النسائى الصغرى | 1800 | رملة بنت صخر | من صلى ثنتي عشرة ركعة بالنهار أو بالليل بنى الله له بيتا في الجنة |
● سنن النسائى الصغرى | 1801 | رملة بنت صخر | من صلى ثنتي عشرة ركعة في يوم فصلى قبل الظهر بنى الله له بيتا في الجنة |
● سنن النسائى الصغرى | 1802 | رملة بنت صخر | اثنتا عشرة ركعة من صلاهن بنى الله له بيتا في الجنة أربع ركعات قبل الظهر ركعتين بعد الظهر ركعتين قبل العصر ركعتين بعد المغرب ركعتين قبل صلاة الصبح |
● سنن النسائى الصغرى | 1803 | رملة بنت صخر | من صلى اثنتي عشرة ركعة بنى الله له بيتا في الجنة أربعا قبل الظهر اثنتين بعدها اثنتين قبل العصر اثنتين بعد المغرب اثنتين قبل الصبح |
● سنن النسائى الصغرى | 1804 | رملة بنت صخر | من صلى في اليوم والليلة ثنتي عشرة ركعة سوى المكتوبة بني له بيت في الجنة أربعا قبل الظهر ركعتين بعدها ثنتين قبل العصر ثنتين بعد المغرب ثنتين قبل الفجر |
● سنن النسائى الصغرى | 1805 | رملة بنت صخر | من صلى في اليوم والليلة ثنتي عشرة ركعة بني له بيت في الجنة |
● سنن النسائى الصغرى | 1806 | رملة بنت صخر | من صلى في الليل والنهار ثنتي عشرة ركعة سوى المكتوبة بني له بيت في الجنة |
● سنن النسائى الصغرى | 1807 | رملة بنت صخر | من صلى في يوم وليلة ثنتي عشرة ركعة سوى المكتوبة بنى الله له بيتا في الجنة |
● سنن النسائى الصغرى | 1808 | رملة بنت صخر | من صلى في يوم ثنتي عشرة ركعة بنى الله له بيتا في الجنة |
● سنن النسائى الصغرى | 1809 | رملة بنت صخر | من صلى في يوم ثنتي عشرة ركعة سوى الفريضة بنى الله له |
● سنن النسائى الصغرى | 1810 | رملة بنت صخر | من صلى ثنتي عشرة ركعة في يوم وليلة بنى الله له بيتا في الجنة |
● سنن النسائى الصغرى | 1811 | رملة بنت صخر | من صلى في يوم اثنتي عشرة ركعة بنى الله له بيتا في الجنة |
● صحيح مسلم | 1696 | رملة بنت صخر | ما من عبد مسلم يصلي لله كل يوم ثنتي عشرة ركعة تطوعا غير فريضة إلا بنى الله له بيتا في الجنة |
● صحيح مسلم | 1694 | رملة بنت صخر | من صلى اثنتي عشرة ركعة في يوم وليلة بني له بهن بيت في الجنة |
● جامع الترمذي | 415 | رملة بنت صخر | من صلى في يوم وليلة ثنتي عشرة ركعة بني له بيت في الجنة أربعا قبل الظهر ركعتين بعدها ركعتين بعد المغرب ركعتين بعد العشاء ركعتين قبل صلاة الفجر |
● سنن أبي داود | 1250 | رملة بنت صخر | من صلى في يوم ثنتي عشرة ركعة تطوعا بني له بهن بيت في الجنة |
● سنن ابن ماجه | 1141 | رملة بنت صخر | من صلى في يوم وليلة ثنتي عشرة ركعة سوى المكتوبة بنى الله له بيتا في الجنة |
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1141
´سنن موکدہ کی بارہ رکعتوں کا بیان۔`
ام حبیبہ بنت ابی سفیان رضی اللہ عنہما کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے رات اور دن میں بارہ رکعتیں (سنن موکدہ) پڑھیں ۱؎، اس کے لیے جنت میں گھر بنایا جائے گا۔“ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1141]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
بارہ رکعت سے مراد ہی مؤکدہ سنتیں ہیں جن کی تفصیل گزشتہ حدیث میں بیان ہوئی ہے۔
(2)
جنت میں گھر تعمیر ہونا ان نمازوں کا اجر ہے۔
اگر دوسرے اعمال کی وجہ سے جنت میں داخل ہو بھی جائے تب بھی اس عمل کے ثواب پر خاص طور پر ایک گھر ملے گا۔
(3)
اس سےمعلوم ہوتا ہے کہ سنت نمازیں پابندی سے ادا کرنے والے کے گناہ معاف ہوجایئں گے۔
جس کی وجہ سے وہ اللہ کی رحمت سے جنت میں داخل ہونے کا اہل ہوجائے گا۔
لہٰذا محض سستی اور بے پروائی کی وجہ سے سنتیں چھوڑ دینا بری بات ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1141
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1250
´نفل نماز کے ابواب اور سنت کی رکعات کا بیان۔`
ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص ایک دن میں بارہ رکعتیں نفل پڑھے گا تو اس کے بدلے اس کے لیے جنت میں گھر بنایا جائے گا۔“ [سنن ابي داود/كتاب التطوع /حدیث: 1250]
1250۔ اردو حاشیہ:
یہ بشارت فرائض سے پہلے اور بعد کی سنتوں سے متعلق ہے جنہیں سنن مؤکدہ یا سنن راتبہ کہا جاتا ہے۔ اس حدیث سے سنن مؤکدہ کی فضیلت واضح ہوتی ہے۔ ان بارہ رکعتوں کی تفصیل دیگر احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں بیان فرمائی ہے: چار رکعت ظہر سے پہلے، دو رکعت اس کے بعد، دو رکعت مغرب کے بعد، دو کعت عشاء کے بعد اور دو کعت نماز فجر سے پہلے۔ دیکھیے: [جامع الترمذي، الصلاة، حديث: 415]
صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ظہر سے پہلے دو رکعتیں پڑھنے کا ذکر بھی ملتا ہے۔ دیکھیے: [صحيح بخاري، التطوع، حديث: 1172، 1180، وصحيح مسلم، صلاة المسافرين، حديث: 729]
اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص دن میں فرائض کے علاوہ دس رکعت ہی ادا کر لیتا ہے اس کے لیے بھی جنت میں گھر بنا دیا جاتا ہے۔ تاہم علماء اس کی بابت فرماتے ہیں کہ اگر ظہر نماز سے قبل اتنا وقت ہو کہ چار رکعت پڑھی جا سکتی ہوں تو چار رکعت ہی پڑھنی چاہئیں اور بہتر ہے کہ یہ دو رکعت کر کے پڑھی جائیں، اگرچہ ایک سلام سے بھی پڑھنا جائز ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1250
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1694
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
(1)
دن رات میں پانچ فرض نمازیں اسلام کا رکن رکین اور لازمہ ایمان ہیں،
جن کے بغیر ایمان کا قیام بقا ممکن نہیں،
لیکن ان کے علاوہ ان ہی کے آگے اور پیچھے کچھ رکعات پڑھنے کی ترغیب و تعلیم بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے،
ان میں سے جن کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تاکیدی الفاظ فرمائے ہیں اور دوسروں کو ترغیب و تشویق دلانے کے ساتھ ساتھ آپﷺ نے عملاً ان کا خوب اہتمام فرمایا ہے تو ان کو سنن راتبہ یا سنن مؤکدہ کا نام دیا جاتا ہے اور اگر آپﷺ نے ان کی ترغیب نہیں دی یا زیادہ اہتمام نہیں کیا تو ان کو سنن غیرمؤکدہ یا نفل سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
(2)
آئمہ اربعہ کا اس امر پر اتفاق ہے کہ دن رات میں بارہ رکعات یعنی دو رکعت فجر سے پہلے چار رکعات ظہر سے پہلے اور دو رکعت ظہر کے بعد دو رکعت مغرب کے بعد اور دو رکعت عشاء کے بعد سنن مؤکدہ ہیں اور ان کے سوا رکعات جن کا ذکر مختلف احادیث میں موجود ہے۔
وہ سنن غیر مؤکدہ اور نوافل ہیں جو انسان کے لیے اجرو ثواب کے حصول اور درجات و مراتب میں رفعت و بلندی کا باعث ہیں۔
(3)
فرضوں سے پہلے پڑھی جانے والی سنن مؤکدہ اور نوافل کا بظاہر مقصد یا حکمت و مصلحت یہ معلوم ہوتی ہے کہ فرض نماز جو اللہ تعالیٰ کے دربار عالیہ میں سرگوشی اور حضوری ہے اور مسجد میں اجتماعی طور پر ادا کی جاتی ہے اس میں مشغول ہونے سے پہلے انفرادی طور پر چند رکعات پڑھ کر دل کو دنیا کے مشاغل اور مصروفیات سے پھیر کر اللہ کے دربار سے کچھ آشنا اور مانوس کر لیا جائے تاکہ فرضوں کی ادائیگی میں پوری یکسوئی اور دلجمعی سے اللہ تعالیٰ سے راز ونیاز ہو سکے اور دل دنیا کے مشاغل میں ہی نہ الجھا رہے۔
(4)
فرضوں کے بعد پڑھے جانے والی سنن راتبہ یا نوافل کی بظاہر یہی حکمت اور مصلحت معلوم ہوتی ہے کہ فرض نماز کی ادائیگی میں جو کمی اور کوتاہی رہ گئی ہے اس کا کچھ ازالہ اور تدراک ہو جائے۔
(5)
ہمارے اسلاف کرام کی یہ عادت مبارکہ تھی کہ جب ان کے سامنے کوئی تاکیدی یا ترغیبی فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم آتا تو حتی الوسع اس کی پابندی اور اہتمام کرتے تھے اس کے بارے میں کسی قسم کے تغافل یا تساہل اور سستی کا مظاہرہ نہیں کرتے تھے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 1694