14. باب اسْتِحْبَابِ رَكْعَتَيْ سُنَّةِ الْفَجْرِ وَالْحَثِّ عَلَيْهِمَا وَتَخْفِيفِهِمَا وَالْمُحَافَظَةِ عَلَيْهِمَا وَبَيَانِ مَا يُسْتَحَبُّ أَنْ يُقْرَأَ فِيهِمَا:
14. باب: فجر کی سنت کی فضیلت و رغبت کا بیان اور ان کو ہلکا پڑھنا اور ہمیشہ پڑھنا اور ان میں جو قرأت زیادہ مستحب ہے اس کا بیان۔
Chapter: It is recommended to pray two rak`ah for the sunnah of Fajr. And encouragement to pray them regularly, and to make them brief, and to persist in offering them, and clarifying what is recommended to recite therein
● صحيح البخاري | 619 | عائشة بنت عبد الله | يصلي ركعتين خفيفتين بين النداء والإقامة من صلاة الصبح |
● صحيح البخاري | 626 | عائشة بنت عبد الله | سكت المؤذن بالأولى من صلاة الفجر قام فركع ركعتين خفيفتين قبل صلاة الفجر بعد أن يستبين الفجر ثم اضطجع على شقه الأيمن حتى يأتيه المؤذن للإقامة |
● صحيح البخاري | 1171 | عائشة بنت عبد الله | يخفف الركعتين اللتين قبل صلاة الصبح حتى إني لأقول هل قرأ بأم الكتاب |
● صحيح البخاري | 1161 | عائشة بنت عبد الله | إذا صلى سنة الفجر فإن كنت مستيقظة حدثني وإلا اضطجع حتى يؤذن بالصلاة |
● صحيح البخاري | 1160 | عائشة بنت عبد الله | إذا صلى ركعتي الفجر اضطجع على شقه الأيمن |
● صحيح مسلم | 1683 | عائشة بنت عبد الله | كان يصلي ركعتين بين النداء والإقامة من صلاة الصبح |
● صحيح مسلم | 1684 | عائشة بنت عبد الله | يصلي ركعتي الفجر فيخفف حتى إني أقول هل قرأ فيهما بأم القرآن |
● صحيح مسلم | 1681 | عائشة بنت عبد الله | يصلي ركعتي الفجر إذا سمع الأذان ويخففهما |
● صحيح مسلم | 1685 | عائشة بنت عبد الله | إذا طلع الفجر صلى ركعتين أقول هل يقرأ فيهما بفاتحة الكتاب |
● صحيح مسلم | 1732 | عائشة بنت عبد الله | إذا صلى ركعتي الفجر فإن كنت مستيقظة حدثني وإلا اضطجع |
● سنن أبي داود | 1263 | عائشة بنت عبد الله | إذا صلى ركعتي الفجر فإن كنت نائمة اضطجع وإن كنت مستيقظة حدثني |
● سنن أبي داود | 1255 | عائشة بنت عبد الله | يخفف الركعتين قبل صلاة الفجر حتى إني لأقول هل قر |
● سنن أبي داود | 1262 | عائشة بنت عبد الله | إذا قضى صلاته من آخر الليل نظر فإن كنت مستيقظة حدثني وإن كنت نائمة أيقظني وصلى الركعتين ثم اضطجع يأتيه المؤذن فيؤذنه بصلاة الصبح فيصلي ركعتين خفيفتين ثم يخرج إلى الصلاة |
● سنن النسائى الصغرى | 947 | عائشة بنت عبد الله | يصلي ركعتي الفجر فيخففهما حتى أقول أقرأ فيهما بأم الكتاب |
● سنن النسائى الصغرى | 1781 | عائشة بنت عبد الله | يصلي ركعتين خفيفتين بين النداء والإقامة من صلاة الفجر |
● سنن النسائى الصغرى | 1763 | عائشة بنت عبد الله | إذا سكت المؤذن بالأولى من صلاة الفجر قام فركع ركعتين خفيفتين قبل صلاة الفجر بعد أن يتبين الفجر يضطجع على شقه الأيمن |
● سنن ابن ماجه | 1198 | عائشة بنت عبد الله | إذا صلى ركعتي الفجر اضطجع على شقه الأيمن |
● بلوغ المرام | 287 | عائشة بنت عبد الله | يخفف الركعتين اللتين قبل صلاة الصبح حتى إني اقول: اقرا بام الكتاب |
● بلوغ المرام | 289 | عائشة بنت عبد الله | إذا صلى ركعتي الفجر اضطجع على شقه الايمن |
● مسندالحميدي | 181 | عائشة بنت عبد الله | إن كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ليصلي ركعتي الفجر فأقول هل قرأ فيهما بفاتحة الكتاب من التخفيف؟ |
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 947
´فجر کی دونوں رکعتیں ہلکی پڑھنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فجر کی سنتیں پڑھتے دیکھتی، آپ انہیں اتنی ہلکی پڑھتے کہ میں (اپنے جی میں) کہتی تھی: کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں میں سورۃ فاتحہ پڑھی ہے (یا نہیں)۔ [سنن نسائي/كتاب الافتتاح/حدیث: 947]
947 ۔ اردو حاشیہ:
➊ یہ مبالغہ ہے جس سے مقصود تخفیف ہے، نہ کہ انہیں شک تھا۔ خصوصاً رات کی نماز (تہجد) کے مقابلے میں تو یہ بہت ہی خفیف معلوم ہوتی ہوں گی، چنانچہ اس حدیث مبارکہ سے ثابت ہوا کہ فجر کی دو سنتیں ہلکی پڑھنا مستحب ہے۔
➋ مذکورہ قرأت سورۂ فاتحہ کے علاوہ ہے۔ یہ نہیں کہ صرف یہ آیات یا یہ سورتیں ہی پڑھتے تھے۔ سورۂ فاتحہ کے بارے میں تو آپ کا صریح فرمان ہے کہ جو فاتحہ نہ پڑھے، اس کی نماز نہیں ہوتی۔ [صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 756، و صحیح مسلم، الصلاة، حدیث: 874]
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 947
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1198
´وتر کے بعد اور فجر کی دو رکعت سنت کے بعد لیٹنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب فجر کی دو رکعت سنت پڑھ لیتے تو دائیں کروٹ لیٹ جاتے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1198]
اردو حاشہ:
فائده:
فجر کی سنتوں کے بعد لیٹنا سنت ہے۔
لیکن نبی اکرمﷺ سے بعض اوقات نہ لیٹنا بھی ثابت ہے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہی سے مروی ہے۔
انھوں نے فرمایا نبی اکرمﷺ جب فجر کی سنتیں پڑھ لیتے تو اگر میں جاگ رہی ہوتی تو آپ مجھ سے بات چیت كرتے ورنہ لیٹ جائے حتیٰ کہ آپ کو نماز (کی اقامت ہوجانے)
کی اطلاع دی جاتی۔ (صحیح البخاري، التهجد، باب من تحدث بعدالرکعتین ولم یضطع، حدیث: 1161)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1198
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 287
´نفل نماز کا بیان`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز فجر سے پہلے دو رکعت ہلکی پڑھتے تھے۔ میں خیال کرتی کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف «ام الكتاب» (سورۃ الفاتحہ) ہی پڑھی۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 287»
تخریج: «أخرجه البخاري، التهجد، باب ما يقرأ في ركعتي الفجر، حديث:1171، ومسلم، صلاة المسافرين، باب استحباب ركعتي سنة الفجر، حديث:724.»
تشریح:
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ صبح کی دو سنتیں مختصر اور ہلکی پڑھتے تھے۔
امام شافعی اور جمہور علماء رحمہما اللہ نے اسی بنا پر کہا ہے کہ ان دو رکعتوں میں مختصر قیام افضل ہے جبکہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ان میں بھی لمبا قیام افضل قرار دیتے ہیں۔
لیکن یہ صحیح نہیں۔
ان کے دونوں شاگرد امام ابویوسف اور امام محمد رحمہما اللہ نے بھی ان کی مخالفت کی ہے۔
سورۂ فاتحہ کے علاوہ آپ چھوٹی سورتیں پڑھتے تھے جیسا کہ آئندہ حدیث میں ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 287
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1262
´فجر کی سنت کے بعد لیٹنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب آخری رات میں اپنی نماز پوری کر چکتے تو اگر میں جاگ رہی ہوتی تو آپ مجھ سے گفتگو کرتے اور اگر سو رہی ہوتی تو مجھے جگا دیتے، اور دو رکعتیں پڑھتے پھر لیٹ جاتے، یہاں تک کہ آپ کے پاس مؤذن آتا اور آپ کو نماز فجر کی خبر دیتا تو آپ دو ہلکی سی رکعتیں پڑھتے، پھر نماز کے لیے نکل جاتے۔ [سنن ابي داود/كتاب التطوع /حدیث: 1262]
1262۔ اردو حاشیہ:
➊ اس حدیث میں وتروں کے بعد گفتگو کرنے اور دو رکعتیں پڑھ کر لیٹ جانے کا ذکر ہے۔ جس سے یہ استدلال کیا جاتا ہے کہ فجر کی دو سنتوں کے بعد لیٹنا سنت نہیں ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو یوں ہی استرحت کے لیے لیٹ جاتے تھے، کبھی نماز تہجد کے بعد (جیسا کہ اس حدیث میں ہے) اور کبھی فجر کی سنتوں کے بعد۔ لیکن یہ استدلال اس لیے صحیح نہیں کہ اس حدیث میں گفتگو کرنے اور وتروں کے بعد لیٹنے والی بات محفوظ نہیں ہے یعنی ایک راوی کو وہم ہوا ہے، جب کہ دوسرے تمام راویوں نے لیٹنے کا ذکر سنتوں کے بعد ہی کیا ہے۔ اس لیے فجر کی سنتوں کے بعد لیٹنے کو غیر مستحب قرار دینا صحیح نہیں ہے۔ ملاحظہ ہو: [فتح الباري، باب من تحدث بعد الركعتين ولم يضطجع: 3/56]
علاوہ ازیں شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی فجر کی سنتوں سے پہلے لیٹنے اور گفتگو کرنے کو ”شاذ“ قرار دیا ہے۔ [ضعيف ابوداؤد]
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ وتروں کے بعد دو رکعتیں نفل پڑھنا بھی جائز ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو یہ فرمایا ہے کہ ”تم وتر کو اپنی رات کی آخری نماز بناؤ۔“ تو یہ حکم وجوب کے طور پر نہیں، استحباب کے طور پر ہے۔ [مرعاة المفاتيح]
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1262
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1684
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی سنتوں کو اختصار و تخفیف (ہلکی)
کے ساتھ ادا کرتے تھے اور ان میں تلاوت زیادہ نہیں فرماتے تھے تاکہ صبح کی فرض نماز میں قرآءت طویل کی جا سکے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 1684