الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1208
´دو نمازوں کو جمع کرنے کا بیان۔`
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ غزوہ تبوک میں سفر سے پہلے سورج ڈھل جانے کی صورت میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عصر کو ظہر کے ساتھ ملا کر پڑھ لیتے، اور اگر سورج ڈھلنے سے پہلے کوچ کرتے تو ظہر کو مؤخر کر دیتے یہاں تک کہ آپ عصر کے لیے قیام کرتے، اسی طرح آپ مغرب میں کرتے، اگر کوچ کرنے سے پہلے سورج ڈوب جاتا تو عشاء کو مغرب کے ساتھ ملا کر پڑھ لیتے اور اگر سورج ڈوبنے سے پہلے کوچ کرتے تو مغرب کو مؤخر کر دیتے یہاں تک کہ عشاء کے لیے قیام کرتے پھر دونوں کو ملا کر پڑھ لیتے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے ہشام بن عروہ نے حصین بن عبداللہ سے حصین نے کریب سے، کریب نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے، ابن عباس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مفضل اور لیث کی حدیث کی طرح روایت کیا ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب صلاة السفر /حدیث: 1208]
1208۔ اردو حاشیہ:
➊ اثنائے سفر میں ”جمع بین الصلٰواتین“ مسنون ہے۔
➋ عصر کو ظہر کے وقت میں اور عشاء کو مغرب کے وقت میں پڑھنا ”جمع تقدیم“ کہلاتا ہے، اور ظہر کو عصر کے وقت میں اور مغرب کو عشاء کے وقت میں پڑھنا ”جمع تاخیر“ اور حسب احوال دونوں ہی صورتیں جائز ہیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ صرف ”جمع صوری“ جائز ہے جس کا طریقہ یہ ہے کہ ظہر کو اس کے آخری وقت میں پڑھا جائے اور عصر کو اس کے ابتدائی وقت میں اسی طرح مغرب، عشاء کو جمع کرنے کا مسئلہ ہے۔ یعنی مغرب کو اس کے آخری وقت میں اور عشاء کو اس کے ابتدائی وقت میں پڑھا جائے، لیکن اس طرح جمع کر کے پڑھنے کو، کیا جمع کر کے پڑھنا کہا جا سکتا ہے؟ یہ تو ہر نماز اپنے اپنے ہی وقت پر ادا ہوئی ہے، اسے جمع کہنا ہی غلط ہے، اس لئے انہوں نے اس کا نام ہی ”جمع صوری“ رکھا ہے۔ یعنی دیکھنے میں جمع ہے لیکن حقیقت میں جمع نہیں لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ”جمع تقدیم“ یا ”جمع تاخیر“ کی ہے۔ کیا وہ جمع صرف صورتاً اسی طرح تھیں، جس طرح ”جمع صوری“ کا طریقہ بیان کیا گیا ہے۔ ظاہری بات ہے حدیث کے الفاظ اس کو قبول نہیں کرتے، حدیث سے تو واضح طور پر معلوم ہو رہا ہے کہ جمع تقدیم کی صورت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نماز کو اس کے اول وقت میں (ظہر یا مغرب کی نماز کو) پڑھا اور اس کے ساتھ ہی فوراً دوسری نماز (عصر یا عشاء) پڑھ لی۔ اور تاخیر کی صورت میں پہلی نماز کا وقت نکل جانے کے بعد دوسری نماز کے وقت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں نمازیں (عصرکے وقت میں عصر کے ساتھ نماز ظہر بھی اور عشاء کے وقت میں عشاء کی نماز کے ساتھ مغرب کی نماز بھی) پڑھیں، ان کو کسی طرح بھی ”جمع صوری“ نہیں کہا جا سکتا۔ یہ حقیقی جمع تھیں اس لئے حالات کے مطابق جمع تقدیم اور جمع تاخیر دونوں طریقے جائز ہیں۔ اور یہ واضح طور پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں۔ یہ اسلام کے ان محاسن میں سے ایک ہے، جن کی بنا پر اسلام کو «دين يسر . . .» (آسان دین) اور دین رحمت کہا جاتا ہے اس کو صرف جمع صوری کی شکل میں محدود کر دینے والے اس «یسر» آسانی اور رحمت سے مسلمانوں کو محروم کر دینا چاہتے ہیں، جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے امتیوں کو عطا کی ہیں۔ «هداهم الله إلى صراط المستقيم»
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1208