فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1029
´رکوع میں اعتدال کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رکوع اور سجدے میں سیدھے رہو ۱؎ اور تم میں سے کوئی بھی اپنے دونوں بازو کتے کی طرح نہ بچھائے۔“ [سنن نسائي/باب سجود القرآن/حدیث: 1029]
1029۔ اردو حاشیہ:
➊ افراط و تفریط کسی کام میں بھی اچھی نہیں بلکہ اعتدال اور میانہ روی ہی درست ہے۔ نماز میں بھی اعتدال ضروری ہے۔ رکوع میں اعتدال یہ ہے کہ سرکو پشت سے اونچا کرے، نہ نیچا۔ بازوؤں اور ٹانگوں کو بالکل سیدھا کس کر رکھے۔ ہاتھوں کو گھٹنوں پر پکڑنے کے انداز میں رکھے اور سجدے میں اعتدال یہ ہے کہ کھلا سجدہ کرے۔ بازوؤں کو نہ تو بالکل سکیڑ کر پہلوؤں سے لگائے اور نہ زمین پر رکھے اور نہ رانوں پر۔ پیٹ کو بھی رانوں سے اٹھا کر رکھے۔ بازو مناسب حد تک باہر کو نکلے ہوئے ہوں۔ اگر صف کے اندر ہو تو گنجائش کے مطابق ہی بازو کھولے تاکہ ساتھیوں کو تکلیف نہ ہو۔ ہتھیلیوں کو سیدھا قبلہ رخ زمین پر رکھے۔
➋ کتے کی طرح بازو پھیلانے کا مطلب یہ ہے کہ ہتھیلیوں کے ساتھ ساتھ کہنیوں کو بھی زمین پر رکھ دے۔ یہ منع ہے۔ نماز کے دوران میں کسی بھی جانور کی مشابہت بہت بری بات ہے، مثلاً: اونٹ کی طرح سجدے کو جانا یا اٹھنا۔ دو سجدوں کے درمیان کتے کی طرح بیٹھنا کہ پاؤں مقعد اور ہاتھ زمین پر رکھے ہوں اور گھٹنے کھڑے ہوں، یہ سب ممنوع ہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 1029