صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
نماز کے احکام و مسائل
The Book of Prayers
44. باب أَعْضَاءِ السُّجُودِ وَالنَّهْيِ عَنْ كَفِّ الشَّعْرِ وَالثَّوْبِ وَعَقْصِ الرَّأْسِ فِي الصَّلاَةِ:
44. باب: سجدوں کے اعضاء کا بیان، اور بالوں اور کپڑوں کے سمیٹنے کی ممانعت اور جوڑا باندھ کر نماز پڑھنے کا بیان۔
Chapter: The Limbs Of Prostration And The Prohibition Of Tucking Up One's Hair And Garment Or Having Ones Hair In A Braid When Praying
حدیث نمبر: 1101
Save to word اعراب
حدثنا عمرو بن سواد العامري ، اخبرنا عبد الله بن وهب ، اخبرنا عمرو بن الحارث ، ان بكيرا حدثه، ان كريبا مولى ابن عباس حدثه، عن عبد الله بن عباس : " انه راى عبد الله بن الحارث، يصلي، وراسه معقوص من ورائه، فقام فجعل يحله، فلما انصرف، اقبل إلى ابن عباس، فقال: ما لك وراسي؟ فقال: إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: إنما مثل هذا، مثل الذي يصلي وهو مكتوف ".حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ سَوَّادٍ الْعَامِرِيُّ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ ، أَنَّ بُكَيْرًا حَدَّثَهُ، أَنَّ كُرَيْبًا مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ حَدَّثَهُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ : " أَنَّهُ رَأَى عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الْحَارِثِ، يُصَلِّي، وَرَأْسُهُ مَعْقُوصٌ مِنْ وَرَائِهِ، فَقَامَ فَجَعَلَ يَحُلُّهُ، فَلَمَّا انْصَرَفَ، أَقْبَلَ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، فَقَالَ: مَا لَكَ وَرَأْسِي؟ فَقَالَ: إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: إِنَّمَا مَثَلُ هَذَا، مَثَلُ الَّذِي يُصَلِّي وَهُوَ مَكْتُوفٌ ".
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے عبد اللہ بن حارث (بن نوفل رضی اللہ عنہ بن عبد المطلب) کو نماز پڑھتے دیکھا، ان کے سر پر پیچھے سے بالوں کو جوڑا بنا ہوا تھا، عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کھڑے ہو کر اس کو کھولنے لگے، جب ابن حارث نے سلام پھیرا تو ابن عباس رضی اللہ عنہما کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا: میرے سر کے ساتھ آپ کا کیا معاملہ ہے (میرے بال کیوں کھولے؟) انہوں نے جواب دیا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: اس طرح (جوڑا باندھ کر) نماز پڑھنے والے کی مثال اس انسان کی طرح ہے جو اس حال میں نماز پڑھتا ہے کہ اس کی مشکیں کسی ہوئی ہوں۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے عبداللہ بن حارث کو نماز پڑھتے دیکھا اور اس نے سر کے پیچھے بالوں کا جوڑا بنایا ہوا تھا، عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کھڑے ہو کر اس کو کھولنے لگے تو جب ابن حارث نے سلام پھیرا تو ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی طرف رخ کر کے پوچھا، میرے سر کے ساتھ تمہارا کیا تعلق ہے؟ (یعنی میرے بال کیوں کھولے؟) تو انہوں نے جواب دیا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: اس طرح (جوڑا باندھ کر نماز پڑھنے والے) کی مثال اس انسان کی طرح ہے جو اس حال میں نماز پڑھتا ہے کہ اس کی مشکیں کسی ہوں۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 492

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
   سنن النسائى الصغرى1115عبد الله بن عباسإنما مثل هذا مثل الذي يصلي وهو مكتوف
   صحيح مسلم1101عبد الله بن عباسإنما مثل هذا مثل الذي يصلي وهو مكتوف
   سنن أبي داود647عبد الله بن عباسإنما مثل هذا مثل الذي يصلي وهو مكتوف

صحیح مسلم کی حدیث نمبر 1101 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1101  
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
وَرَأسُهُ مَعْقُوصٌ:
اس کے سر پر بالوں کا جوڑا باندھا ہواتھا۔
عَقَصَ الشَّعْر کا معنی ہوتا ہے بالوں کی چوٹی بنانا یا گوندھنا* کہتے ہیں عَقَصَتِ الْمَرْأْةُ شَعْرَهَا،
ع ورت نے اپنے بالوں کا جوڑا باندھا۔
فوائد ومسائل:
ان احادیث میں سجدےکے لیے سات اعضاء کی تصریح آئی ہے ناک پیشانی میں داخل ہے اس سے علیحدہ نہیں ہے اور ان سب اعضاء کا زمین پر لگانا ضروری ہے احناف کا پاؤں کے بارے میں اختلاف ہے بعض پاؤں کے زمین پر لگانے کو فرض کہتے ہیں بعض سنت اور بعض مستحب امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ناک کا لگانا ضروری نہیں ہے اور صاحبین کے نزدیک ضروری ہے۔
امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک پیشانی کے ساتھ ناک کا بھی زمین پر لگانا ضروری ہے اس کے بغیر نماز نہیں ہوگی باقی آئمہ کے نزدیک ناک زمین پر لگانا سنت یا مستحب ہے۔
(صَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُوْنِي أُصَلِّي)
کا تو معنی یہی ہے کہ ساتوں اعضاء زمین پر لگائے جائیں۔
بعض لوگ سجدے میں جاتے ہوئے اس کی کوشش کرتے ہیں کہ اپنے کپڑے اور بالوں کو خاک آلود ہونے سے بچائیں یہ بات چونکہ سجدے کی روح اور مقصد کے منافی ہے اس لیے نماز میں بالوں کا جوڑا باندھنے اور کپڑوں کو سمیٹنے سے منع فرمایا۔
عبداللہ بن حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ سر کا جوڑا باندھ کر نماز پڑھ رہے تھے تو عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے نماز کی حالت میں ان کا جوڑا کھول دیا جس سے ثابت ہوا کہ کپڑے سمیٹ کر یا جوڑا باندھ کر نماز پڑھنا درست نہیں ہے یہ معنی نہیں ہے کہ یہ کام اثنائے نماز میں نہ کرے اگر نماز سے پہلے کر لے اور بعد میں نماز شروع کر دے تو پھر درست ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1101   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 647  
´آدمی بالوں کا جوڑا باندھ کر نماز پڑھے تو کیسا ہے؟`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے آزاد کردہ غلام کریب کا بیان ہے کہ عبداللہ بن عباس نے عبداللہ بن حارث رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ نماز پڑھ رہے ہیں اور ان کے پیچھے بالوں کا جوڑا بندھا ہوا ہے، تو وہ ان کے پیچھے کھڑے ہو کر اسے کھولنے لگے اور عبداللہ بن حارث چپ چاپ کھڑے رہے، جب نماز سے فارغ ہوئے تو ابن عباس کی طرف متوجہ ہوئے اور کہنے لگے: آپ نے میرا سر کیوں کھول دیا؟ تو انہوں نے کہا: اس لیے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ: اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی نماز پڑھ رہا ہو اور اس کے ہاتھ پیچھے رسی سے بندھے ہوں۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 647]
647۔ اردو حاشیہ:
➊ مردوں کے لیے بالوں کا جوڑا بنانا بالخصوص نماز میں جائز نہیں، چاہیے کہ انہیں ویسے ہی لمبا چھوڑ دیا جائے اور سجدے کی حالت میں زمیں پر لگنے دیا جائے۔ دوسری حدیث میں صراحت ہے کہ مجھے حکم ہے کہ سات ہڈیوں پر سجدہ کروں اور بالوں کو نہ باندھوں اور کپڑے کو نہ سمیٹوں۔ [صحيح بخاري، حديث: 812 و صحيح مسلم، حديث: 490]
➋ جن بزگوں کے متعلق آیا ہے کہ انہوں نے جوڑا بنایا ہوا تھا تو شاید انہیں یہ ارشاد نبوی معلوم نہ تھا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 647   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1115  
´سر میں جوڑا بندھے ہوئے نمازی کی مثال۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ انہوں نے عبداللہ بن حارث رضی اللہ عنہ کو اس حالت میں نماز پڑھتے دیکھا کہ ان کے سر میں پیچھے جوڑا بندھا ہوا تھا، تو وہ کھڑے ہو کر اسے کھولنے لگے، جب عبداللہ بن حارث رضی اللہ عنہ سلام پھیر چکے تو ابن عباس رضی اللہ عنہم کے پاس آئے، اور کہنے لگے: آپ کو میرے سر سے کیا مطلب تھا؟ تو انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: اس کی مثال اس آدمی جیسی ہے جو نماز پڑھ رہا ہو اور اس کے ہاتھ بندھے ہوں۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب التطبيق/حدیث: 1115]
1115۔ اردو حاشیہ:
➊ جس طرح پیچھے بندھے ہوئے ہاتھوں والا بہت ناقص نماز پڑھتا ہے، اسی طرح بندھے ہوئے بالوں والا اپنے بالوں کو ثواب سے محروم رکھتا ہے، بخلاف اس کے اگر وہ بال زمین پر لگتے تو ان کا بھی سجدہ شمار ہوتا اور انہیں ثواب ملتا۔ گویا نماز سے پہلے بھی بالوں کا جوڑا نہیں بنا ہونا چاہیے، چہ جائیکہ کوئی نماز میں ایسے کرے۔
➋ خلاف شرع کام ہوتا دیکھ کر موقع ہی پر تنبیہ کر دینی چاہیے، خواہ مخواہ یا بالکل سکوت نہیں کرنا چاہیے۔
➌ برائی کو ہاتھ سے مٹانے کی طاقت ہو تو اسے ہاتھ سے مٹا دینا چاہیے۔
➍ خبر واحد حجت ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1115   



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.