حدثنا آدم، حدثنا إسرائيل، عن ابي إسحاق، عن عبد الله بن يزيد الخطمي، حدثنا البراء بن عازب وهو غير كذوب، قال: كنا نصلي خلف النبي صلى الله عليه وسلم، فإذا قال:" سمع الله لمن حمده، لم يحن احد منا ظهره حتى يضع النبي صلى الله عليه وسلم جبهته على الارض".حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ الْخَطْمِيِّ، حَدَّثَنَا الْبَرَاءُ بْنُ عَازِبٍ وَهُوَ غَيْرُ كَذُوبٍ، قَالَ: كُنَّا نُصَلِّي خَلْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِذَا قَالَ:" سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، لَمْ يَحْنِ أَحَدٌ مِنَّا ظَهْرَهُ حَتَّى يَضَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَبْهَتَهُ عَلَى الْأَرْضِ".
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اسرائیل نے ابواسحاق سے بیان کیا، انہوں نے عبداللہ بن یزید سے، انہوں نے کہا کہ ہم سے براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، وہ جھوٹ نہیں بول سکتے تھے۔ آپ نے فرمایا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں نماز پڑھتے تھے۔ جب آپ «سمع الله لمن حمده» کہتے (یعنی رکوع سے سر اٹھاتے) تو ہم میں سے کوئی اس وقت تک اپنی پیٹھ نہ جھکاتا جب تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی پیشانی زمین پر نہ رکھ دیتے۔
Narrated Al-Bara' bin `Azib: (He was not a liar) We used to pray behind the Prophet and when he said, "Sami`a l-lahu liman hamidah", none of us would bend his back (to go for prostration) till the Prophet had placed his, forehead on the ground.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 12, Number 775
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 830
´رکوع، سجود وغیرہ میں امام سے سبقت کرنے کا بیان۔` براء رضی اللہ عنہ (جو جھوٹے نہ تھے ۱؎) سے روایت ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھتے، اور آپ رکوع سے اپنا سر اٹھاتے تو وہ سیدھے کھڑے رہتے یہاں تک کہ وہ دیکھ لیتے کہ آپ سجدہ میں جا چکے ہیں، پھر وہ سجدہ میں جاتے۔ [سنن نسائي/كتاب الإمامة/حدیث: 830]
830 ۔ اردو حاشیہ: ہو سکتا ہے امام صاحب بزرگ ہوں یا انہیں کوئی تکلیف ہو جس کی وجہ سے انہیں سجدے تک جاتے جاتے دیر لگ جائے۔ اگر مقتدی ان کے سر جھکاتے ہی سجدے میں جانا شروع کر دیں تو ممکن ہے تیز رفتار یا نوجوان مقتدی ان سے پہلے سجدے میں پہنچ جائیں اس لیے ضروری ہے کہ مقتدی اس وقت سجدے کے لیے جھکیں جب امام صاحب سجدے میں سرزمین پر رکھ لیں۔ اس طرح رکعت کے لیے کھڑے ہوتے وقت بھی انتظار کیا جائے کہ امام صاحب سیدھے کھڑے ہو جائیں پھر مقتدی اٹھنا شروع کریں تاکہ امام سے آگے بڑھنے کا امکان بھی نہ رہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 830
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 811
811. حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے اور وہ جھوٹے آدمی نہیں تھے، انہوں نے فرمایا: ہم نبی ﷺ کے پیچھے نماز پڑھتے تھے، جب آپ سمع الله لمن حمده کہتے تو ہم میں سے کوئی شخص اپنی پیٹھ نہ جھکاتا جب تک نبی ﷺ اپنی پیشانی زمین پر نہ رکھ دیتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:811]
حدیث حاشیہ: اصل میں پیشانی ہی زمین پر رکھنا سجدہ کرنا ہے اور ناک بھی پیشانی ہی میں داخل ہے۔ اس لیے ناک اور پیشانی ہر دو کا زمین سے لگانا واجب ہے۔ پھر دونوں ہاتھوں اور دونوں گھٹنوں کا زمین پر ٹیکنا اور دونوں پیروں کی انگلیوں کو قبلہ رخ موڑ کر رکھنا یہ کل سات اعضاءہوئے جن میں سجدہ ہوتا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 811
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:811
811. حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے اور وہ جھوٹے آدمی نہیں تھے، انہوں نے فرمایا: ہم نبی ﷺ کے پیچھے نماز پڑھتے تھے، جب آپ سمع الله لمن حمده کہتے تو ہم میں سے کوئی شخص اپنی پیٹھ نہ جھکاتا جب تک نبی ﷺ اپنی پیشانی زمین پر نہ رکھ دیتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:811]
حدیث حاشیہ: (1) امام سے پہلے مقتدی کے لیے کسی رکن میں مصروف ہونا منع ہے، اس لیے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اس حکم امتناعی کا بہت خیال رکھتے تھے۔ (2) علامہ کرمانی ؒ نے اس حدیث کی عنوان سے مطابقت بایں الفاظ بیان کی ہے کہ عام طور پر دوران سجدہ میں پیشانی کو دیگر چھ اعضاء کی معاونت ہی سے زمین پر رکھا جاتا ہے، چونکہ اس حدیث میں دیگر اعضائے سجدہ کا ذکر نہیں ہے، اس لیے دیگر احادیث جن میں صرف پیشانی کا ذکر ہے تو وہ دوسرے اعضائے سجدہ کے مقابلے میں اس کے اشرف عضو ہونے کی وجہ سے ہے۔ بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ پیشانی پر سجدہ کرنا واجب ہے، اس لیے بعض روایات میں صرف پیشانی کے ذکر پر اکتفا کیا گیا ہے اور باقی اعضاء پر سجدہ مستحب ہے، اس لیے بعض روایات میں انہیں نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ (فتح الباري: 384/2) لیکن یہ موقف صحیح نہیں کیونکہ سات اعضاء پر سجدہ کرنے کو لفظ امر سے تعبیر کیا گیا ہے جو وجوب کے لیے ہے، لہٰذا کسی عضو کو چھوڑ کر باقی اعضاء پر اکتفا کرنا صحیح نہیں۔ ہاں، اگر کوئی عذر مانع ہو تو الگ بات ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 811