Narrated: Abu `Abdur-Rahman and Hibban bin 'Atiyya had a dispute. Abu `Abdur-Rahman said to Hibban, "You know what made your companions (i.e. `Ali) dare to shed blood." Hibban said, "Come on! What is that?" `Abdur-Rahman said, "Something I heard him saying." The other said, "What was it?" `AbdurRahman said, "`Ali said, Allah's Apostle sent for me, Az-Zubair and Abu Marthad, and all of us were cavalry men, and said, 'Proceed to Raudat-Hajj (Abu Salama said that Abu 'Awana called it like this, i.e., Hajj where there is a woman carrying a letter from Hatib bin Abi Balta'a to the pagans (of Mecca). So bring that letter to me.' So we proceeded riding on our horses till we overtook her at the same place of which Allah's Apostle had told us. She was traveling on her camel. In that letter Hatib had written to the Meccans about the proposed attached of Allah's Apostle against them. We asked her, "Where is the letter which is with you?' She replied, 'I haven't got any letter.' So we made her camel kneel down and searched her luggage, but we did not find anything. My two companions said, 'We do not think that she has got a letter.' I said, 'We know that Allah's Apostle has not told a lie.'" Then `Ali took an oath saying, "By Him by Whom one should swear! You shall either bring out the letter or we shall strip off your clothes." She then stretched out her hand for her girdle (round her waist) and brought out the paper (letter). They took the letter to Allah's Apostle. `Umar said, "O Allah's Apostle! (Hatib) has betrayed Allah, His Apostle and the believers; let me chop off his neck!" Allah's Apostle said, "O Hatib! What obliged you to do what you have done?" Hatib replied, "O Allah's Apostle! Why (for what reason) should I not believe in Allah and His Apostle? But I intended to do the (Mecca) people a favor by virtue of which my family and property may be protected as there is none of your companions but has some of his people (relatives) whom Allah urges to protect his family and property." The Prophet said, "He has said the truth; therefore, do not say anything to him except good." `Umar again said, "O Allah's Apostle! He has betrayed Allah, His Apostle and the believers; let me chop his neck off!" The Prophet said, "Isn't he from those who fought the battle of Badr? And what do you know, Allah might have looked at them (Badr warriors) and said (to them), 'Do what you like, for I have granted you Paradise?' " On that, `Umar's eyes became flooded with tears and he said, "Allah and His Apostle know best."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 84, Number 72
● صحيح البخاري | 6259 | علي بن أبي طالب | انطلقوا حتى تأتوا روضة خاخ فإن بها امرأة من المشركين معها صحيفة من حاطب بن أبي بلتعة إلى المشركين قال فأدركناها تسير على جمل لها حيث قال لنا رسول الله قال قلنا أين الكتاب الذي معك قالت ما معي كتاب فأنخنا بها فابتغينا في رحلها فما |
● صحيح البخاري | 4274 | علي بن أبي طالب | إنه قد شهد بدرا وما يدريك لعل الله اطلع على من شهد بدرا فقال اعملوا ما شئتم فقد غفرت لكم فأنزل الله السورة يأيها الذين آمنوا لا تتخذوا عدوي وعدوكم أولياء تلقون إليهم بالمودة وقد كفروا بما جاءكم من الحق إلى قوله فقد ضل سواء السبيل |
● صحيح البخاري | 3007 | علي بن أبي طالب | انطلقوا حتى تأتوا روضة خاخ فإن بها ظعينة ومعها كتاب فخذوه منها فانطلقنا تعادى بنا خيلنا حتى انتهينا إلى الروضة فإذا نحن بالظعينة فقلنا أخرجي الكتاب فقالت ما معي من كتاب فقلنا لتخرجن الكتاب أو لنلقين الثياب فأخرجته من عقاصها فأتينا به رسول الله صلى الله |
● صحيح البخاري | 4890 | علي بن أبي طالب | ما هذا يا حاطب قال لا تعجل علي يا رسول الله إني كنت امرأ من قريش ولم أكن من أنفسهم وكان من معك من المهاجرين لهم قرابات يحمون بها أهليهم وأموالهم بمكة فأحببت إذ فاتني من النسب فيهم أن أصطنع إليهم يدا يحمون قرابتي وما فعلت ذلك كفرا ولا ارتدادا عن ديني ف |
● صحيح البخاري | 6939 | علي بن أبي طالب | انطلقوا حتى تأتوا روضة حاج فإن فيها امرأة معها صحيفة من حاطب بن أبي بلتعة إلى المشركين فأتوني بها فانطلقنا على أفراسنا حتى أدركناها حيث قال لنا رسول الله تسير على بعير لها وقد كان كتب إلى أهل مكة بم |
● صحيح البخاري | 3081 | علي بن أبي طالب | ائتوا روضة كذا وتجدون بها امرأة أعطاها حاطب كتابا فأتينا الروضة فقلنا الكتاب قالت لم يعطني فقلنا لتخرجن أو لأجردنك فأخرجت من حجزتها فأرسل إلى حاطب فقال لا تعجل والله ما كفرت ولا ازددت للإسلام إلا حبا ولم يكن أحد من أصحابك إلا وله بمكة من يدفع الله به عن |
● صحيح البخاري | 3983 | علي بن أبي طالب | انطلقوا حتى تأتوا روضة خاخ فإن بها امرأة من المشركين معها كتاب من حاطب بن أبي بلتعة إلى المشركين فأدركناها تسير على بعير لها حيث قال رسول الله فقلنا الكتاب فقالت ما معنا كتاب فأنخناها فالتمسنا فلم نر كتابا فقلنا ما كذب رسول الله صلى |
● صحيح مسلم | 6401 | علي بن أبي طالب | بعثنا رسول الله أنا والزبير والمقداد فقال ائتوا روضة خاخ فإن بها ظعينة معها كتاب فخذوه منها فانطلقنا تعادى بنا خيلنا فإذا نحن بالمرأة فقلنا أخرجي الكتاب فقالت ما معي كتاب فقلنا لتخرجن الكتاب أو لتلقين الثياب فأخرجته من عقاصها فأتينا |
● جامع الترمذي | 3305 | علي بن أبي طالب | انطلقوا حتى تأتوا روضة خاخ فإن فيها ظعينة معها كتاب فخذوه منها فأتوني به فخرجنا تتعادى بنا خيلنا حتى أتينا الروضة فإذا نحن بالظعينة فقلنا أخرجي الكتاب فقالت ما معي من كتاب فقلنا لتخرجن الكتاب أو لتلقين الثياب قال فأخرجته من عقاصها قال فأتينا به رسول |
● سنن أبي داود | 2650 | علي بن أبي طالب | اعملوا ما شئتم فقد غفرت لكم |
● مسندالحميدي | 49 | علي بن أبي طالب | انطلقوا حتى تأتوا روضة خاخ بها ظعينة معها كتاب فخذوه منها |
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3305
´سورۃ الممتحنہ سے بعض آیات کی تفسیر۔`
عبیداللہ بن ابورافع کہتے ہیں کہ میں نے علی رضی الله عنہ کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے زبیر اور مقداد بن اسود کو بھیجا، فرمایا: جاؤ، روضہ خاخ ۱؎ پر پہنچو وہاں ایک ھودج سوار عورت ہے، اس کے پاس ایک خط ہے، وہ خط جا کر اس سے لے لو، اور میرے پاس لے آؤ، چنانچہ ہم نکل پڑے، ہمارے گھوڑے ہمیں لیے لیے دوڑ میں ایک دوسرے سے آگے بڑھ جانے کی کوشش کر رہے تھے، ہم روضہ پہنچے، ہمیں ہودج سوار عورت مل گئی، ہم نے اس سے کہا: خط نکال، اس نے کہا: ہمارے پاس کوئی خط نہیں ہے، ہم نے کہا: خط نکالتی ہے یا پھر اپنے کپڑے اتارتی ہے؟ (ی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3305]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
خاخ ایک جگہ کا نام ہے اس کے اور مدینہ کے درمیان 12میل کا فاصلہ ہے۔
2؎:
اے لوگو! جو ایمان لائے ہو،
میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ،
تم انہیں دوستی کا پیغام بھیجتے ہو (الممتحنة: 1)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 3305
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2650
´جاسوس اگر مسلمان ہو اور کافروں کے لیے جاسوسی کرے تو اس کے حکم کا بیان۔`
عبیداللہ بن ابی رافع جو علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے منشی تھے، کہتے ہیں: میں نے علی رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے، زبیر اور مقداد تینوں کو بھیجا اور کہا: ”تم لوگ جاؤ یہاں تک کہ روضہ خاخ ۱؎ پہنچو، وہاں ایک عورت کجاوہ میں بیٹھی ہوئی اونٹ پر سوار ملے گی اس کے پاس ایک خط ہے تم اس سے اسے چھین لینا“، تو ہم اپنے گھوڑے دوڑاتے ہوئے چلے یہاں تک کہ روضہ خاخ پہنچے اور دفعتاً اس عورت کو جا لیا، ہم نے اس سے کہا: خط لاؤ، اس نے کہا: میرے پاس کوئی خط نہیں ہے، میں نے کہا: خط نکالو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2650]
فوائد ومسائل:
1۔
رسول اللہ ﷺ کا غیب کی خبریں دینا وحی کی بنا پر ہوتا تھا۔
2۔
مجاہد کو تلوار کا دھنی ہونے کے ساتھ ساتھ دیگر تدابیر سے بھی کام لینا چاہیے۔
جیسے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دھمکی سے کام نکالا۔
3۔
صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کی امانت قابل قدر ہے کہ انہوں نے اپنے طور پر خط پڑھنے کی کوشش نہیں کی۔
4۔
کافر کا کوئی اکرام و احترام نہیں ہوتا، بالخصوص جب وہ مسلمانوں کے خلاف کام کرتا ہو۔
5۔
بعض صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین تمام تر رفعت شان کے باوجود بشری خطائوں سے مبرا نہ تھے اور ان سے ان کے عادل ہونے پر بھی کوئی اثر نہیں پڑا۔
جیسے کہ حضرت حاطب رضی اللہ تعالیٰ عنہ
6۔
جب کوئی شخص کسی ناجائز کام کا مرتکب ہوا ہو وہ اس کے جواز میں اپنے فہم (تاویل) کا سہارا لے تو اس کا عذر ایک حد تک قبول کیا جائے گا۔
بشرط یہ کہ اس کے فہم (تاویل) کی گنجائش نکلتی ہو۔
7۔
کوئی مسلمان ہوتے ہوئے اپنے مسلمانوں کے راز افشاں کرے۔
اور ان کی جاسوسی کرے۔
تو یہ حرام کام ہے۔
اور انتہائی کبیرہ گناہ مگر اس کو قتل نہیں کیا جائے گا۔
لیکن تعزیر ضرور ہوگی۔
امام شافعی فرماتے ہیں۔
کہ اگر کوئی مسلمان باوقار ہو اور مسلمانوں کو ضرر پہنچانے کی تہمت سے مہتم نہ ہو تو اس کو معاف بھی کیا جاسکتا ہے۔
8۔
کسی واضح عمل کی بنا پر اگر کوئی شخص کسی کو کفر یانفاق کی طرف منسوب کردے تو اس پرکوئی سزا نہیں۔
جیسے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا تھا۔
9۔
اہل بدر کو دیگر صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کے مقابلے میں ایک ممتاز مرتبہ حاصل تھا۔
حضرت حاطبرضی اللہ تعالیٰ عنہ انہی میں سے تھے۔
اور نفاق کی تہمت سے بری تھے۔
10۔
جو جی چاہے کرو۔
کہ یہ معنی ہرگز نہیں کہ وہ شرعی پابندیوں سے آذاد قرار دیئے گئے۔
بلکہ یہ ان کی مدح ثناء تھی۔
اور اللہ تعالیٰ کی طرفسے ضمانت تھی۔
کہ یہ لوگ اللہ کی خاص حفاظت میں ہیں۔
ان میں سے کوئی ایسا کام مصادر نہ ہوگا۔
جوشریعت کے صریح منافی ہو۔
واللہ اعلم۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2650
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6939
6939. سعد بن عبیدہ سلمی سے روایت ہے کہ ایک دفعہ حضرت ابو عبدالرحمن اور حبّان بن عطیہ کا آپس میں اختلاف ہوا۔ اس دوران میں ابو عبدالرحمن نے حبان سے کہا: مجھے معلوم ہے کہ آپ کے ساتھی کو کس چیز نے خون ریزری پر دلیر کیا ہے۔ اس سے مراد حضرت علی ؓ تھے۔ حبان نے کہا: تیرا باپ نہ ہو! ”وہ کیا ہے؟“ ابو عبدالرحمن نے کہا: میں نے انہیں یہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے حضرت زبیر اور حضرت ابو مرثد ؓ کو ایک مہم کے لیے بھیجا جبکہ ہم گھوڑوں پر سوار تھے، آپ نے فرمایا: جاؤ اور روضہ حاج پہنچو۔ ابو اسلمہ نے کہا: ابو عوانہ نے اسی طرح (روضہ خاخ کے بجائے روضہ) حاج کہا ہے۔۔ وہاں ایک عورت ہے، اس کے پاس حاطب بن ابی بلتعہ کا ایک خط ہے جو اس نے مشرکین مکہ کے نام لکھا ہے۔ تم وہ (خط) میرے پاس لاؤ۔ ہم اپنے گھوڑوں پر سوار ہوکر دوڑ پڑے، چنانچہ ہم نے اسے جگہ پایا جہاں رسول اللہ ﷺ نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6939]
حدیث حاشیہ:
یہ حدیث کئی بار اوپر گزر چکی ہے۔
باب کا مطلب اس طرح نکلا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے نزدیک حضرت حاطب رضی اللہ عنہ کو خائن سمجھا۔
ایک روایت کی بنا پر ان کو منافق بھی کہا مگر چونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ایسا خیال کرنے کی ایک وجہ تھی یعنی ان کا خط پکڑا جانا جس میں اپنی قوم کا نقصان تھا تو گویا وہ تاویل کرنے والے تھے اور اسی لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کوئی مواخذہ نہیں کیا۔
اب یہ اعتراض ہوتا ہے کہ ایک بار جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حاطب کی نسبت یہ فرمایا کہ وہ سچا ہے تو پھر دوبارہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو مار ڈالنے کی اجازت کیوں کر چاہی اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت کی رائے ملکی اور شرعی قانون ظاہری پر تھی جو شخص اپنے بادشاہ اپنی قوم کا راز دشمنوں پر ظاہر کرے اس کی سزا موت ہے اور ایک بار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمانے سے کہ وہ سچا ہے ان کی پوری تشفی نہیں ہوئی کیوں کہ سچا ہونے کی صورت میں بھی ان کا عذر اس قابل نہ تھا کہ اس جرم کی سزا سے وہ بری ہو جاتے۔
جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ یہ فرمایا کہ اللہ نے بدریوں کے سب قصور معاف فرما دیئے ہیں تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو تسلی ہو گئی اور اپنا خیال انہوں نے چھوڑ دیا اس سے بدری صحابہ کے جنتی ہونے کا اثبات ہوا۔
لفظ لا أبا لك عربوں کے محاورہ میں اس وقت بولا جاتا ہے جب کوئی شخص ایک عجیب بات کہتا ہے مطلب یہ ہوتا ہے کہ تیرا کوئی ادب سکھانے والا باپ نہ تھا جب ہی تو بے ادب رہ گیا۔
ابوعبدالرحمن عثمانی تھے اور حبان بن عطیہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے طرف دارتھے۔
ابوعبدالرحمن کا یہ کہنا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نسبت صحیح نہ تھا کہ وہ بے وجہ شرعی مسلمانوں کی خونریزی کرتے ہیں۔
انہوں نے جو کچھ کہا حکم شرعی کے تحت کہا ابوعبدالرحمن کو یہ بدگمانی یوں ہوئی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سامنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بشارت سنائی تھی کہ جنگ بدر میں شرکت کرنے والے بخشے ہوئے ہیں اللہ پاک نے بدریوں سے فرمادیا کہ ﴿اِعمَلُوا مَاشِئتُم فَقَد اَوجَبتُ لَکُمُ الجَنَّةَ﴾ تم جو چاہو عمل کرو میں تمہارے لیے جنت واجب کر چکا ہوں چونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی بدری ہیں اس لیے اب وہ اس بشارت خدائی کے پیش نظر خون ریزی کرنے میں جری ہوگئے ہیں۔
ابوعبدالرحمن کا یہ گمان صحیح نہ تھا ناحق خون ریزی کرنا حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بالکل بعید تھا۔
جو کچھ انہوں نے کیا شریعت کے تحت کیا یوں بشری لغزش امر دیگر ہے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ ابوطالب کے بیٹے ہیں، نوجوانوں میں اولین اسلام قبول کرنے والے ہیں۔
عمر دس سال یا پندرہ سال کی تھی۔
جنگ تبوک کے سوا سب جنگوں میں شریک ہوئے۔
گندم گوں، بڑی بڑی آنکھوں والے، درمیانہ قد، بہت بال والے، چوڑی داڑھی والے، سر کے اگلے حصہ میں بال نہ تھے۔
جمعہ کے دن 18ذی الحجہ 35 ھ کو خلیفہ ہوئے یہی شہادت عثمان رضی اللہ عنہ کا دن ہے۔
ایک خارجی عبدالرحمن بن ملجم مرادی نے18 رمضان بوقت صبح بروز جمعہ 40ھ میں آپ کو شہید کیا۔
زخمی ہونے کے بعد تین رات زندہ رہے، 63 سال کی عمر پائی۔
حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہم اجمعین نے نہلایا اور حضرت حسن نے نماز جنازہ پڑھائی۔
صبح کے وقت دفن کئے گئے۔
مدت خلافت چار سال نو ماہ اور کچھ دن ہے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ خلیفہ رابع برحق ہیں۔
بہت ہی بڑے دانش مند اسلام کے جرنیل، بہادر اور صاحب مناقب کثیرہ ہیں آپ کی محبت جزوایمان ہے۔
تینوں خلافتوں میں ان کا بڑا مقام رہا۔
بہت صائب الرائے اور عالم و فاضل تھے۔
صد افسوس کہ آپ کی ذات گرامی کو آڑ بنا کر ایک یہودی عبداللہ بن سبا نے امت مسلمہ میں خانہ جنگی و فتنہ و فساد کو جگہ دی۔
یہ محض مسلمانوں کو دھوکہ دینے کے لیے بظاہر مسلمان ہوگیا تھا۔
اس نے یہ فتنہ کھڑا کیا کہ خلافت کے وصی حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں، حضرت عثمان ناحق خلیفہ بن بیٹھے ہیں۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خلافت کے لیے حضرت علی کو اپنا وصی بنا گئے ہیں، لہٰذا خلافت صرف حضرت علی ہی کا حق ہے۔
عبداللہ بن سبا نے یہ ایسی من گھڑت بات ایجاد کی تھی جس کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور بعد میں خلافت صدیقی و فاروقی و عثمانی میں کوئی ذکر نہیں تھا مگر نام چونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ جیسے عالی منقبت کا تھا اس لیے کتنے سادہ لوح لوگوں پر اس یہودی کا یہ جادو چل گیا۔
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کا اندوہناک واقعہ اسی فتنہ کی بنا پر ہوا۔
آپ بیاسی سال کی عمر میں 18ذی الحجہ 35ھ کو جبکہ آپ قرآن شریف کی آیت ﴿فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللَّهُ﴾ پر پہنچے تھے کہ نہایت بے دردی سے شہید کئے گئے اور آپ کے خون کی دھار قرآن پاک کے ورق پر اسی آیت کی جگہ جا کر پڑی۔
رضي اللہ عنه۔
الحمد للہ حرمین شریفین کے سفر میں تین بار آپ کی قبر پر دعائے مسنون پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی ہے۔
اللہ پاک قیامت کے دن ان سب بزرگوں کی زیارت نصیب کرے آمین۔
شہادت حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے امت کا نظام ایسا منتشر ہوا جو آج تک قائم ہے اور شاید قیامت تک بھی نہ ختم ہو------فلیبك علی الإسلام من کان باکیا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 6939
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6939
6939. سعد بن عبیدہ سلمی سے روایت ہے کہ ایک دفعہ حضرت ابو عبدالرحمن اور حبّان بن عطیہ کا آپس میں اختلاف ہوا۔ اس دوران میں ابو عبدالرحمن نے حبان سے کہا: مجھے معلوم ہے کہ آپ کے ساتھی کو کس چیز نے خون ریزری پر دلیر کیا ہے۔ اس سے مراد حضرت علی ؓ تھے۔ حبان نے کہا: تیرا باپ نہ ہو! ”وہ کیا ہے؟“ ابو عبدالرحمن نے کہا: میں نے انہیں یہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے حضرت زبیر اور حضرت ابو مرثد ؓ کو ایک مہم کے لیے بھیجا جبکہ ہم گھوڑوں پر سوار تھے، آپ نے فرمایا: جاؤ اور روضہ حاج پہنچو۔ ابو اسلمہ نے کہا: ابو عوانہ نے اسی طرح (روضہ خاخ کے بجائے روضہ) حاج کہا ہے۔۔ وہاں ایک عورت ہے، اس کے پاس حاطب بن ابی بلتعہ کا ایک خط ہے جو اس نے مشرکین مکہ کے نام لکھا ہے۔ تم وہ (خط) میرے پاس لاؤ۔ ہم اپنے گھوڑوں پر سوار ہوکر دوڑ پڑے، چنانچہ ہم نے اسے جگہ پایا جہاں رسول اللہ ﷺ نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6939]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت ابو عبدالرحمٰن کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے عقیدت تھی،اس لیے وہ عثمانی کہلاتے تھے اور حضرت ابن عطیہ کو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے محبت کی وجہ سے علوی کہا جاتا تھا۔
(صحیح البخاري، الجھاد، حدیث: 3081)
اس لیے ابو عبدالرحمٰن نے ابن عطیہ سے کہا:
مجھے معلوم ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اس قدر خون ریزی پر کیوں جرأت کرتے ہیں۔
انھیں یقین ہے کہ میں اہل جنت میں سے ہوں، اس لیے اجتہادی معاملات میں اگر کوئی خطا ہو گئی تو وہ قیامت کے دن معاف ہو جائے گی۔
حضرت ابو عبدالرحمٰن کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق یہ غلط فہمی ہوئی۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ اس سلسلے میں انتہائی محتاط تھے، پھر اہل بدر کی مغفرت کا تعلق آخرت سے ہے لیکن دنیا میں اگر حد کا مرتکب ہوا تو اس پر حد ضرور قائم ہو گی جیسا کہ حضرت مسطح رضی اللہ عنہ پر حد قذف لگائی گئی، حالانکہ وہ اہل بدر میں سے تھے۔
(2)
اہل علم کا اس امر پر اتفاق ہے کہ اگر کوئی اہل بدر میں سے گناہ، مثلاً:
کسی پر تہمت لگانا، قتل کرنا وغیرہ کا مرتکب ہوا تو اس پر حد قصاص واجب ہے۔
(3)
اس حدیث کا عنوان سے اس طرح تعلق ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک دوسری روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے حضرت حاطب رضی اللہ عنہ کو منافق قرار دیا اور خائن کہا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حاطب رضی اللہ عنہ کا دفاع تو کیا لیکن ردعمل کے طور پرحضرت عمر رضی اللہ عنہ کو کافر یا منافق نہیں کہا کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انھیں ایک معقول تاویل کی بنا پر منافق کہا تھا کیونکہ انھوں نے اہل مکہ کے نام ایک خط لکھا تھا جس میں اسلام اور اہل اسلام کے خلاف ایک اہم راز فاش کیا تھا۔
یہ ایک فوجداری جرم تھا اور ایسا کرنا کفار سے دوستی رکھنے کے مترادف تھا۔
چونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک معقول وجہ سے انھیں منافق کہا تھا، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا مؤاخذہ نہیں کیا بلکہ ان کی فکری غلطی کی اصلاح فرمائی اور حضرت حاطب رضی اللہ عنہ کا دفاع کرتے ہوئے فرمایا:
”جو لوگ غزوۂ بدر میں شریک ہو چکے ہیں اللہ تعالیٰ نےانھیں معاف کر دیا ہے۔
“ حضرت عمر رضی الله عنہ نے حضرت حاطب رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے کی اجازت اس لیے مانگی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا موقف یہ تھا کہ جو انسان اپنے سربراہ یا اپنی قوم کا راز دشمنوں کے سامنے فاش کرے، اس کی سزا موت ہے۔
ان کے سچا ہونے کی صورت میں بھی ان کا عذر اس قابل نہ تھا کہ وہ اس جرم کی سزا سے بری ہو جائیں۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ وضاحت فرمائی کہ اللہ تعالیٰ نے اہل بدر کے سب قصور معاف کر دیے ہیں تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اپنے موقف سے دستبردار ہوگئے اور مارے خوشی کے ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 6939