حدثنا علي بن حجر، حدثنا إسماعيل بن إبراهيم، عن ايوب، عن القاسم التميمي، عن زهدم الجرمي، قال: كنا عند ابي موسى وكان بيننا وبين هذا الحي، من جرم إخاء ومعروف، قال: فقدم طعام، قال: وقدم في طعامه لحم دجاج، قال: وفي القوم رجل من بني تيم الله احمر كانه مولى، قال: فلم يدن، فقال له ابو موسى: ادن فإني قد رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم ياكل منه، قال: إني رايته ياكل شيئا قذرته، فحلفت ان لا اطعمه ابدا، فقال: ادن اخبرك عن ذلك، اتينا رسول الله صلى الله عليه وسلم في رهط من الاشعريين استحمله، وهو يقسم نعما من نعم الصدقة، قال ايوب: احسبه قال: وهو غضبان، قال:" والله لا احملكم وما عندي ما احملكم عليه"، قال: فانطلقنا، فاتي رسول الله صلى الله عليه وسلم بنهب إبل، فقيل: اين هؤلاء الاشعريون، فاتينا فامر لنا بخمس ذود غر الذرى، قال: فاندفعنا، فقلت لاصحابي: اتينا رسول الله صلى الله عليه وسلم نستحمله، فحلف ان لا يحملنا، ثم ارسل إلينا فحملنا، نسي رسول الله صلى الله عليه وسلم يمينه، والله لئن تغفلنا رسول الله صلى الله عليه وسلم يمينه لا نفلح ابدا، ارجعوا بنا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلنذكره يمينه، فرجعنا فقلنا: يا رسول، الله اتيناك نستحملك، فحلفت ان لا تحملنا ثم حملتنا، فظننا او فعرفنا انك نسيت يمينك، قال:" انطلقوا، فإنما حملكم الله، إني والله إن شاء الله لا احلف على يمين، فارى غيرها خيرا منها، إلا اتيت الذي هو خير، وتحللتها"، تابعه حماد بن زيد، عن ايوب، عن ابي قلابة، والقاسم بن عاصم الكليبي.حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ الْقَاسِمِ الْتَّمِيمِيِّ، عَنْ زَهْدَمٍ الْجَرْمِيِّ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ أَبِي مُوسَى وَكَانَ بَيْنَنَا وَبَيْنَ هَذَا الْحَيِّ، مِنْ جَرْمٍ إِخَاءٌ وَمَعْرُوفٌ، قَالَ: فَقُدِّمَ طَعَامٌ، قَالَ: وَقُدِّمَ فِي طَعَامِهِ لَحْمُ دَجَاجٍ، قَالَ: وَفِي الْقَوْمِ رَجُلٌ مِنْ بَنِي تَيْمِ اللَّهِ أَحْمَرُ كَأَنَّهُ مَوْلًى، قَالَ: فَلَمْ يَدْنُ، فَقَالَ لَهُ أَبُو مُوسَى: ادْنُ فَإِنِّي قَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْكُلُ مِنْهُ، قَالَ: إِنِّي رَأَيْتُهُ يَأْكُلُ شَيْئًا قَذِرْتُهُ، فَحَلَفْتُ أَنْ لَا أَطْعَمَهُ أَبَدًا، فَقَالَ: ادْنُ أُخْبِرْكَ عَنْ ذَلِكَ، أَتَيْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَهْطٍ مِنْ الْأَشْعَرِيِّينَ أَسْتَحْمِلُهُ، وَهُوَ يَقْسِمُ نَعَمًا مِنْ نَعَمِ الصَّدَقَةِ، قَالَ أَيُّوبُ: أَحْسِبُهُ قَالَ: وَهُوَ غَضْبَانُ، قَالَ:" وَاللَّهِ لَا أَحْمِلُكُمْ وَمَا عِنْدِي مَا أَحْمِلُكُمْ عَلَيْهِ"، قَالَ: فَانْطَلَقْنَا، فَأُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنَهْبِ إِبِلٍ، فَقِيلَ: أَيْنَ هَؤُلَاءِ الْأَشْعَرِيُّونَ، فَأَتَيْنَا فَأَمَرَ لَنَا بِخَمْسِ ذَوْدٍ غُرِّ الذُّرَى، قَالَ: فَانْدَفَعْنَا، فَقُلْتُ لِأَصْحَابِي: أَتَيْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَسْتَحْمِلُهُ، فَحَلَفَ أَنْ لَا يَحْمِلَنَا، ثُمَّ أَرْسَلَ إِلَيْنَا فَحَمَلَنَا، نَسِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمِينَهُ، وَاللَّهِ لَئِنْ تَغَفَّلْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمِينَهُ لَا نُفْلِحُ أَبَدًا، ارْجِعُوا بِنَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلْنُذَكِّرْهُ يَمِينَهُ، فَرَجَعْنَا فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ، اللَّهِ أَتَيْنَاكَ نَسْتَحْمِلُكَ، فَحَلَفْتَ أَنْ لَا تَحْمِلَنَا ثُمَّ حَمَلْتَنَا، فَظَنَنَّا أَوْ فَعَرَفْنَا أَنَّكَ نَسِيتَ يَمِينَكَ، قَالَ:" انْطَلِقُوا، فَإِنَّمَا حَمَلَكُمُ اللَّهُ، إِنِّي وَاللَّهِ إِنْ شَاءَ اللَّهُ لَا أَحْلِفُ عَلَى يَمِينٍ، فَأَرَى غَيْرَهَا خَيْرًا مِنْهَا، إِلَّا أَتَيْتُ الَّذِي هُوَ خَيْرٌ، وَتَحَلَّلْتُهَا"، تَابَعَهُ حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، وَالْقَاسِمِ بْنِ عَاصِمٍ الْكُلَيْبِيِّ.
ہم سے علی بن حجر نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن ابراہیم نے بیان کیا، ان سے ایوب سختیانی نے، ان سے قاسم تمیمی نے، ان سے زہدم جرمی نے بیان کیا کہ ہم ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے پاس تھے اور ہمارے قبیلہ اور اس قبیلہ جرم میں بھائی چارگی اور باہمی حسن معاملہ کی روش تھی۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر کھانا لایا گیا اور کھانے میں مرغی کا گوشت بھی تھا۔ راوی نے بیان کیا کہ حاضرین میں بنی تیم اللہ کا ایک شخص سرخ رنگ کا بھی تھا جیسے مولیٰ ہو۔ بیان کیا کہ وہ شخص کھانے پر نہیں آیا تو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا کہ شریک ہو جاؤ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا گوشت کھاتے دیکھا ہے۔ اس شخص نے کہا کہ میں نے اسے گندگی کھاتے دیکھا تھا جب سے اس سے گھن آنے لگی اور اسی وقت میں نے قسم کھا لی کہ کبھی اس کا گوشت نہیں کھاؤں گا۔ ابوموسیٰ نے کہا: قریب آؤ میں تمہیں اس کے متعلق بتاؤں گا۔ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں اشعریوں کی ایک جماعت کے ساتھ آئے اور میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سواری کا جانور مانگا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت صدقہ کے اونٹوں میں سے تقسیم کر رہے تھے۔ ایوب نے بیان کیا کہ میرا خیال ہے کہ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت غصہ تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کی قسم! میں تمہیں سواری کے جانور نہیں دے سکتا اور نہ میرے پاس کوئی ایسی چیز ہے جو سواری کے لیے تمہیں دے سکوں۔ بیان کیا کہ پھر ہم واپس آ گئے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس غنیمت کے اونٹ آئے، تو پوچھا گیا کہ اشعریوں کی جماعت کہاں ہے۔ ہم حاضر ہوئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں پانچ عمدہ اونٹ دئیے جانے کا حکم دیا۔ بیان کیا کہ ہم وہاں سے روانہ ہوئے تو میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ہم پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سواری کے لیے آئے تھے تو آپ نے قسم کھا لی تھی کہ سواری کا انتظام نہیں کر سکتے۔ پھر ہمیں بلا بھیجا اور سواری کا جانور عنایت فرمائے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قسم بھول گئے ہوں گے۔ واللہ! اگر ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی قسم کے بارے میں غفلت میں رکھا تو ہم کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔ چلو ہم سب آپ کے پاس واپس چلیں اور آپ کو آپ کی قسم یاد دلائیں۔ چنانچہ ہم واپس آئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ہم پہلے آئے تھے اور آپ سے سواری کا جانور مانگا تھا تو آپ نے قسم کھا لی تھی کہ آپ اس کا انتظام نہیں کر سکتے، ہم نے سمجھا کہ آپ اپنی قسم بھول گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جاؤ، تمہیں اللہ نے سواری دی ہے، واللہ اگر اللہ نے چاہا تو میں جب بھی کوئی قسم کھا لوں اور پھر دوسری چیز کو اس کے مقابل بہتر سمجھوں تو وہی کروں گا جو بہتر ہو گا اور اپنی قسم توڑ دوں گا۔ اس روایت کی متابعت حماد بن زید نے ایوب سے کی، ان سے ابوقلابہ اور قاسم بن عاصم کلیبی نے۔
Narrated Zahdam al-Jarmi: We were sitting with Abu Musa Al-Ash'sari, and as there were ties of friendship and mutual favors between us and his tribe. His meal was presented before him and there was chicken meat in it. Among those who were present there was a man from Bani Taimillah having a red complexion as a non-Arab freed slave, and that man did not approach the meal. Abu Musa said to him, "Come along! I have seen Allah's Apostle eating of that (i.e., chicken)." The man said, "I have seen it (chickens) eating something I regarded as dirty, and so I have taken an oath that I shall not eat (its meat) chicken." Abu Musa said, "Come along! I will inform you about it (i.e., your oath). Once we went to Allah's Apostle in company with a group of Ash'airiyin, asking him for mounts while he was distributing some camels from the camels of Zakat. (Aiyub said, "I think he said that the Prophet was in an angry mood at the time.") The Prophet said, 'By Allah! I will not give you mounts, and I have nothing to mount you on.' After we had left, some camels of booty were brought to Allah's Apostle and he said, "Where are those Ash`ariyin? Where are those Ash`ariyin?" So we went (to him) and he gave us five very fat good-looking camels. We mounted them and went away, and then I said to my companions, 'We went to Allah's Apostle to give us mounts, but he took an oath that he would not give us mounts, and then later on he sent for us and gave us mounts, perhaps Allah's Apostle forgot his oath. By Allah, we will never be successful, for we have taken advantage of the fact that Allah's Apostle forgot to fulfill his oath. So let us return to Allah's Apostle to remind him of his oath.' We returned and said, 'O Allah's Apostle! We came to you and asked you for mounts, but you took an oath that you would not give us mounts) but later on you gave us mounts, and we thought or considered that you have forgotten your oath.' The Prophet said, 'Depart, for Allah has given you Mounts. By Allah, Allah willing, if I take an oath and then later find another thing better than that, I do what is better, and make expiation for the oath.' "
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 79, Number 712
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2107
´جس نے کسی بات پر قسم کھائی پھر اس کے خلاف کرنا بہتر سمجھا تو اس کے حکم کا بیان۔` ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اشعری قبیلہ کے چند لوگوں کے ہمراہ آپ سے سواری مانگنے کے لیے حاضر ہوا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کی قسم! میں تم کو سواری نہیں دوں گا، اور میرے پاس سواری ہے بھی نہیں کہ تم کو دوں“، پھر ہم جب تک اللہ نے چاہا ٹھہرے رہے، پھر آپ کے پاس زکاۃ کے اونٹ آ گئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لیے سفید کوہان والے تین اونٹ دینے کا حکم دیا، جب ہم انہیں لے کر چلے تو ہم میں سے ایک نے دوسرے سے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابن ماجه/كتاب الكفارات/حدیث: 2107]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) قسم کی تین قسمیں ہیں:
(ا) لغو: جس میں قسم کا لفظ بولا جائے لیکن قسم کا ارادہ نہ ہو جیسے بعض لوگ عادت کے طور پر بلا ارادہ قسم کے لفظ بول دیتے ہیں۔ اس پر کوئی مواخذہ نہیں تاہم اس سے اجتناب بہتر ہے۔
(ب) غموس: یعنی جھوٹی قسم جو کسی کو دھوکا دینے کے لیے کھائی جائے۔ یہ کبیرہ گناہ ہے، اس پر توبہ استغفار کرنا چاہیے اور آئندہ بچنے کی پوری کوشش کرنی چاہیے تاہم اس پر کفارہ واجب نہیں۔
(ج) معقدہ: جو مستقبل میں کسی کام کرنے کا ارادہ ظاہر کرتے ہوئے کلام میں تاکید اور پختگی کے لیے ارادہ نیت سے کھائے۔ اس قسم کو توڑنے پر کفارہ ادا کرنا ضروری ہے۔ (دیکھیئے: تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف سورہ المائدہ 5: 89) ۔
(2) قسم کا کفارہ دس غریب آدمیوں کو کھانا کھلانا یا انہیں لباس مہیا کرنا یا ایک غلام آزاد کرنا ہے۔ (سورۃ مائدۃ: 89)
(3) ایک آدمی کو خوراک کے طور پر ایک مدغلہ (تقریبا چھ سو گرام) کافی ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے رمضان میں روزے کی حالت میں ہم بستری کر لینے والے کو ساتھ مسکینوں میں تقسیم کرنے کے لیے پندرہ صاع کھجوریں دی تھیں۔ اور ایک صاع میں چار مد ہوتے ہیں۔ بعض علماء کے نزدیک خوراک اور لباس میں عرف کا اعتبار ہے یعنی جسے عام لوگ کہیں کہ اس نے کھانا کھلا دیا قرآن مجید سے یہی ارشارہ معلوم ہوتا ہے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ﴾(المائدۃ، 5: 89) ”اوسط درجے کا جو تم اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہو۔“ یعنی اس کی مقدار مقرر نہیں۔ اپنی استطاعت کے مطابق سادہ یا عمدہ کھانا یا لباس دینا چاہیے۔
(4) نیکی کا کام نہ کرنے یا گناہ کرنے کی قسم کھانا بھی ناجائز ہے۔ اس پر بھی کفارہ ادا کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَلَا تَجْعَلُوا اللَّـهَ عُرْضَةً لِّأَيْمَانِكُمْ أَن تَبَرُّوا وَتَتَّقُوا وَتُصْلِحُوا بَيْنَ النَّاسِ﴾(البقرۃ، 2: 224) ”اور اللہ تعالیٰ کو اپنی قسموں کا (اس طرح) نشانہ نہ بناؤ کہ بھلائی اور پرہیز گاری اور لوگوں کے درمیان صلح کرانا چھوڑ بیٹھو۔“
(5) جو کام نہ کرنے کی قسم کھائی ہو کفارہ اسے انجام دینے سے پہلے بھی دیا جاسکتا ہے بعد میں بھی۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2107
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6721
6721. حضرت زہد جرمی سے روایت ہے انہوں نے کہا: ہم حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کے پاس تھے۔ ہمارے اور اس قبیلہ جرم کے درمیان بھائی چارہ اور احسان شناسی کے تعلقات تھے۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کی خدمت میں کھانا پیش کیا گیا۔ اس کھانے میں مرغ کا گوشت بھی تھا۔ ان لوگوں میں بنو تیم اللہ سے ایک سرخ رنگ کا آدمی تھا وہ بظاہر غلام معلوم ہوتا تھا۔ وہ کھانے کے قریب نہ آيا تو حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ نے کہا: کھانا قریب ہو کر کھاؤ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ کھاتے ہوئے دیکھا ہے اس نے کہا: میں نے اسے گندگی سے کھاتے دیکھا ہے اس لیے مجھے اس سے گھن آتی ہے اور میں نے قسم کھائی تھی کہ میں اسے کبھی نہیں کھاؤں گا۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ نے فرمایا: کھانے میں شریک ہو جاؤ، میں تمہیں قسم کے متعلق آگاہ کرتا ہوں۔ ہم قبیلہ اشعر کے لوگوں کے ہمراہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے میں نے آپ سے سوار کا جانور طلب کیا، اس۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:6721]
حدیث حاشیہ: کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ کفارہ قسم توڑنے کے بعد دینا چاہیے کیونکہ کفارہ گناہ کو چھپاتا ہے اور قسم توڑنے سے پہلے گناہ ہی نہیں تو اس نے چھپانا کس چیز کو ہے، لہذا حانث ہونے سے پہلے کفارہ جائز نہیں، لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کا موقف ہے کہ کفارہ قسم توڑنے سے پہلے بھی ادا کیا جا سکتا ہے کیونکہ جب قسم توڑنے کا ارادہ کر لیا تو گناہ کا ارادہ ہو گیا، اس بنا پر کفارہ پہلے دینے میں کوئی حرج نہیں، چنانچہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی مذکورہ روایت کے یہ الفاظ بھی مروی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں قسم کا کفارہ دے دیتا ہوں اور وہ کام کر گزرتا ہوں جو بہتر ہوتا ہے۔ “(صحیح البخاري، الأیمان والنذور، حدیث: 6623)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 6721
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوہاب نے بیان کیا، ان سے ایوب نے، ان سے ابوقلابہ اور قاسم تمیمی نے اور ان سے زہدم نے یہی حدیث نقل کی۔
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوہاب نے بیان کیا، ان سے ایوب نے، ان سے ابوقلابہ اور قاسم تمیمی نے اور ان سے زہدم نے یہی حدیث نقل کی۔