Narrated Ka`b bin 'Ujra: I came to the Prophet and he said to me, "Come near." So I went near to him and he said, "Are your lice troubling you?" I replied, "Yes." He said, "(Shave your head and) make expiation in the form of fasting, Sadaqa (giving in charity), or offering a sacrifice." (The sub-narrator) Aiyub said, "Fasting should be for three days, and the Nusuk (sacrifice) is to be a sheep, and the Sadaqa is to be given to six poor persons."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 79, Number 699
● صحيح البخاري | 4191 | كعب بن عجرة | نزلت هذه الآية فمن كان منكم مريضا أو به أذى من رأسه ففدية من صيام أو صدقة أو نسك |
● صحيح البخاري | 4190 | كعب بن عجرة | احلق وصم ثلاثة أيام أو أطعم ستة مساكين أو انسك نسيكة |
● صحيح البخاري | 4517 | كعب بن عجرة | صم ثلاثة أيام أو أطعم ستة مساكين لكل مسكين نصف صاع من طعام واحلق رأسك |
● صحيح البخاري | 5665 | كعب بن عجرة | أيؤذيك هوام رأسك قلت نعم فدعا الحلاق فحلقه ثم أمرني بالفداء |
● صحيح البخاري | 5703 | كعب بن عجرة | احلق وصم ثلاثة أيام أو أطعم ستة أو انسك نسيكة |
● صحيح البخاري | 4159 | كعب بن عجرة | أنزل الله الفدية يطعم فرقا بين ستة مساكين أو يهدي شاة أو يصوم ثلاثة أيام |
● صحيح البخاري | 6708 | كعب بن عجرة | فدية من صيام أو صدقة أو نسك |
● صحيح البخاري | 1816 | كعب بن عجرة | صم ثلاثة أيام أو أطعم ستة مساكين لكل مسكين نصف صاع |
● صحيح البخاري | 1815 | كعب بن عجرة | صم ثلاثة أيام أو تصدق بفرق بين ستة أو انسك بما تيسر |
● صحيح البخاري | 1814 | كعب بن عجرة | احلق رأسك وصم ثلاثة أيام أو أطعم ستة مساكين أو انسك بشاة |
● صحيح البخاري | 1817 | كعب بن عجرة | يطعم فرقا بين ستة أو يهدي شاة أو يصوم ثلاثة أيام |
● صحيح مسلم | 2882 | كعب بن عجرة | احلق رأسك ثم اذبح شاة نسكا أو صم ثلاثة أيام أو أطعم ثلاثة آصع من تمر على ستة مساكين |
● صحيح مسلم | 2877 | كعب بن عجرة | احلق وصم ثلاثة أيام أو أطعم ستة مساكين أو انسك نسيكة |
● صحيح مسلم | 2879 | كعب بن عجرة | فدية من صيام أو صدقة أو نسك ما تيسر |
● صحيح مسلم | 2880 | كعب بن عجرة | احلق رأسك في نزلت هذه الآية فمن كان منكم مريضا أو به أذى من رأسه ففدية من صيام أو صدقة أو نسك |
● صحيح مسلم | 2881 | كعب بن عجرة | احلق رأسك وأطعم فرقا بين ستة مساكين والفرق ثلاثة آصع أو صم ثلاثة أيام أو انسك نسيكة |
● صحيح مسلم | 2883 | كعب بن عجرة | ما كنت أرى أن الجهد بلغ منك ما أرى أتجد شاة فقلت لا نزلت هذه الآية ففدية من صيام أو صدقة أو نسك |
● صحيح مسلم | 2884 | كعب بن عجرة | يصوم ثلاثة أيام أو يطعم ستة مساكين لكل مسكينين صاع أنزل الله فيه خاصة فمن كان منكم مريضا أو به أذى من رأسه |
● جامع الترمذي | 2974 | كعب بن عجرة | احلق رأسك وانسك نسيكة أو صم ثلاثة أيام أو أطعم ستة مساكين |
● جامع الترمذي | 953 | كعب بن عجرة | احلق وأطعم فرقا بين ستة مساكين والفرق ثلاثة آصع أو صم ثلاثة أيام أو انسك نسيكة |
● جامع الترمذي | 2973 | كعب بن عجرة | كأن هوام رأسك تؤذيك قال قلت نعم قال فاحلق |
● سنن أبي داود | 1856 | كعب بن عجرة | احلق ثم اذبح شاة نسكا أو صم ثلاثة أيام أو أطعم ثلاثة آصع من تمر على ستة مساكين |
● سنن أبي داود | 1858 | كعب بن عجرة | صم ثلاثة أيام أو تصدق بثلاثة آصع من تمر على ستة مساكين بين كل مسكينين صاع |
● سنن أبي داود | 1857 | كعب بن عجرة | انسك نسيكة وإن شئت فصم ثلاثة أيام وإن شئت فأطعم ثلاثة آصع من تمر لستة مساكين |
● سنن أبي داود | 1860 | كعب بن عجرة | احلق رأسك وصم ثلاثة أيام أو أطعم ستة مساكين فرقا من زبيب أو انسك شاة فحلقت رأسي ثم نسكت |
● سنن النسائى الصغرى | 2854 | كعب بن عجرة | صم ثلاثة أيام أو أطعم ستة مساكين مدين مدين أو انسك شاة أي ذلك فعلت أجزأ عنك |
● سنن النسائى الصغرى | 2855 | كعب بن عجرة | احلقه وتصدق على ستة مساكين |
● سنن ابن ماجه | 3079 | كعب بن عجرة | نزلت هذه الآية ففدية من صيام أو صدقة أو نسك |
● سنن ابن ماجه | 3080 | كعب بن عجرة | أحلق رأسي وأصوم ثلاثة أيام أو أطعم ستة مساكين وقد علم أن ليس عندي ما أنسك |
● موطا امام مالك رواية ابن القاسم | 335 | كعب بن عجرة | صم ثلاثة ايام، او اطعم ستة مساكين مدين مدين لكل إنسان، او انسك بشاة، اى ذلك فعلت اجزا عنك |
● بلوغ المرام | 603 | كعب بن عجرة | فصم ثلاثة ايام، او اطعم ستة مساكين، لكل مسكين نصف صاع |
● مسندالحميدي | 726 | كعب بن عجرة | أيؤذيك هوامك يا كعب |
● مسندالحميدي | 727 | كعب بن عجرة | أوقد تحت قدر |
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 335
´حالت اضطراری میں وقت سے پہلے سر منڈانے پر کفارہ`
«. . . 397- مالك عن عبد الكريم بن مالك الجزري عن مجاهد عن عبد الرحمن بن أبى ليلى عن كعب بن عجرة أنه كان مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فآذاه القمل فى رأسه، فأمره رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يحلق رأسه وقال: ”صم ثلاثة أيام، أو أطعم ستة مساكين مدين مدين لكل إنسان، أو انسك بشاة، أى ذلك فعلت أجزأ عنك.“ . . .»
”. . . سیدنا کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ (حج کے دوران میں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے تو انہیں (کعب رضی اللہ عنہ کو) سر میں جوئیں تکلیف دے رہی تھیں پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ سر منڈوالو اور فرمایا: ”تین دن روزے رکھو یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلاؤ ہر انسان کو دو دو مد یا ایک بکری کی قربانی دو، ان میں سے جو بھی کرو گے وہ تمہاری طرف سے کافی ہے۔“ . . .“ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 335]
تخریج الحدیث:
[وأخرجه ابوداود 1861، من حديث مالك به مختصراً ورواه البخاري 1815، ومسلم 1201، من حديث مجاهد عن عبدالرحمٰن بن ابي ليليٰ به]
تفقه:
➊ ایک مُد چوتھائی صاع کو کہتے ہیں۔
➋ اگر حالتِ احرام میں کسی بیماری کی وجہ سے سر منڈوانا پڑے تو اس کے کفارے میں تین روزے رکھنا ہوں گے یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلانا یا پھر ایک بکری کا ذبح کر کے حرم کے مساکین میں تقسیم کرنا ہو گا۔
➌ احرام کے علاوہ ہر وقت سر منڈانا جائز ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بچہ دیکھا جس کے سر کے بالوں کا بعض حصہ مونڈا ہوا تھا اور بعض چھوڑا گیا تھا تو آپ نے فرمایا: «احلقوہ کله أو اترکوہ کله۔» اس کا سارا سر منڈوا دو یا سارا چھوڑ دو۔ [سنن ابي داود: 4195 وسنده صحيح]
● یہ حدیث سب لوگوں کے لئے عام ہے لیکن عورتوں کی تخصیص دوسری صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ عورتوں کے لئے سر منڈانا منع ہے۔ دیکھئے [سنن ابي داود 1985، وسنده حسن وحسنه الحافظ ابن حجر رحمه الله فى التلخيص الحبير 2/261 ح1058]
➍ سیدنا عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہ نے مدینے میں قربانی کی اور اپنا سر مونڈا یعنی منڈوایا۔ [مصنف ابن ابي شيبه 237/3 ح13888، وسنده صحيح] نیز دیکھئے ماہنامہ الحدیث حضرو: 27ص 46
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 397
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3080
´محصور کے فدیہ کا بیان۔`
کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جس وقت جوؤں نے مجھے پریشان کیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ میں اپنا سر منڈوا ڈالوں، اور تین دن روزے رکھوں، یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلاؤں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم جانتے تھے کہ میرے پاس قربانی کے لیے کچھ نہیں ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 3080]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
احرام کی حالت میں سر منڈوانا اور بال کاٹنا منع ہے۔
(2)
اگر کسی عذر کی وجہ سے وہ کام کرنا پڑے جو احرام کی حالت میں جائز نہیں تو فدیہ دینا پڑے ہوگا۔
(3)
فدیہ ایک بکری ہے۔
اگر یہ ممکن نہ ہوتو تین روزے رکھ لیے جائیں یا چھ مسکینوں کو آدھا آدھا صاع غلہ دےدیا جائے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 3080
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 603
´احرام اور اس کے متعلقہ امور کا بیان`
سیدنا کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اٹھا کر لایا گیا اور جوئیں میرے چہرے پر گر رہی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”میرا یہ خیال نہ تھا کہ تم کو بیماری نے اس حالت کو پہنچا دیا ہو گا جو میں دیکھ رہا ہوں، کیا تیرے پاس بکری ہے؟“ میں نے عرض کیا کہ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”تین دن روزہ رکھ یا چھ مسکینوں کو آدھا صاع ہر مسکین کے حساب سے کھانا دے۔“ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/حدیث: 603]
603 لغوی تشریح:
«حُمَلْتُ» صیغۂ مجہول ہے، یعنی مجھے اٹھا کر لایا گیا۔
«الْقَمْلُ» ”قاف“ پر زبر اور ”میم“ ساکن ہے۔ چھوٹے چھوٹے حشرات جنہیں جویٔں کہتے ہیں۔
«يَتَناثَرُ» یعنی کثرت کی وجہ سے وہ سر سے میرے منہ پر گر رہی تھیں اور حضرت کعب رضی اللہ عنہ انہیں مارتے نہیں تھے کیونکہ وہ محرم تھے۔
«مَا كُنْتُ أُرٰي»، «أُرٰي» کے ”ہمزہ“ پر پیش ہے۔ صیغۂ مجہول ہے یعنی مجھے گمان نہ تھا۔
«الْوَجَعَ» تکلیف۔
«مَاأَرٰي» ”ہمزہ“ پر زبر۔ رؤیت بصری سے مشتق ہے، یعنی جو میں دیکھ رہا ہوں۔
«أَتَجِدُ شَاة» یعنی حضرت کعب رضی اللہ عنہ کی یہ حالت دیکھ کر آپ نے انہیں سر منڈوانے کا حکم دیا اور اس کے کفارے کے طور پر ایک بکری ذبح کرنے یا تین دن روزے رکھنے کا یا چھ مساکین کو کھانا کھلانے کا حکم دیا۔ ان تینوں میں سے کوئی کام بھی کیا جا سکتا یے کیونکہ آپ نے اختیار دیا تھا۔
راویٔ حدیث:
حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ، عجرہ میں ”عین“ پر پیش اور ”جیم“ ساکن ہے۔ یہ جلیل القدر صحابی قبیلہ ”بلي“ سے تعلق رکھتے تھے جو انصار کا حلیف تھا، کوفہ چلے گئے تھے۔ بلآخر مدینہ طیبہ میں 51 ھجری میں 75 سال کی عمر میں وفات پائی۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 603
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2973
´سورۃ البقرہ سے بعض آیات کی تفسیر۔`
مجاہد کہتے ہیں کہ کعب بن عجرہ رضی الله عنہ نے کہا: قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! یہ آیت: «فمن كان منكم مريضا أو به أذى من رأسه ففدية من صيام أو صدقة أو نسك» ”البتہ تم میں سے جو بیمار ہو یا اس کے سر میں کوئی تکلیف ہو (جس کی وجہ سے سر منڈا لے) تو اس پر فدیہ ہے، خواہ روزے رکھ لے، خواہ صدقہ دے، خواہ قربانی کرے“ (البقرہ: ۱۹۶)، میرے بارے میں اتری ہم حدیبیہ میں تھے، احرام باندھے ہوئے تھے، مشرکوں نے ہمیں روک رکھا تھا، میرے بال کانوں کے لو کے برابر تھے، سر کے جوئیں چہرے پر گرنے لگیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ہمارے پاس ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 2973]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
البتہ تم میں سے جو بیمار ہو یا اس کے سر میں کوئی تکلیف ہو (جس کی وجہ سے سر منڈا لے) تو اس پر فدیہ ہے،
خواہ روزے رکھ لے،
خواہ صدقہ دے،
خواہ قربانی کرے (البقرۃ: 196) 2؎:
دوسری حدیث میں صراحت آ گئی ہے کہ تین صاع چھ مسکین کو کھلائے یعنی فی مسکین آدھا صاع (جو بھی کھانا وہاں کھایا جاتا ہو)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 2973
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1856
´محرم کے فدیہ کا بیان۔`
کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلح حدیبیہ کے زمانے میں ان کے پاس سے گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تمہیں تمہارے سر کی جوؤں نے ایذا دی ہے؟“ کہا: ہاں، اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سر منڈوا دو، پھر ایک بکری ذبح کرو، یا تین دن کے روزے رکھو، یا چھ مسکینوں کو تین صاع کھجور کھلاؤ ۱؎۔“ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1856]
1856. اردو حاشیہ:
➊ اعمال حج میں کیس تقصیر پرمشروع قربانی صدقہ یا روزہ رکھنا فدیہ کہلاتا ہے۔بمعنی عوض یا بدل
➋ ایک صاع چار مد کا ہوتا ہے۔اور ایک مد تقریباً 9 چھٹانک کا۔تین صاع چھ مسکینوں پر تقسیم کریں گے۔تو ہر مسکین کو دو مد (18چھٹا نک) ملیں گے۔ پس یہی فدیے کا حساب ہوا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1856
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6708
6708. حضرت کعب بن عجرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا: ”قریب ہوجاؤ“ پھر میں قریب ہوا تو آپ نے پوچھا: ”کیا تمہارے سر کی جوئیں تمہیں تکلیف دے رہی ہیں؟“ میں نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: ”پھر روزے رکھو یا صدقہ دو یا قربانی کا فدیہ دو،۔“ ابن عون کے طریق سے ایوب نے کہا: روزے تین دن کے ہوں گے قربانی ایک بکری کی اور کھانا چھ مساکین کے لیے ہوگا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6708]
حدیث حاشیہ:
کعب بن عجرہ کی حدیث حج کے فدیہ کے بارے میں ہے اس کو قسم کے فدیہ سے کوئی تعلق نہ تھا۔
مگر امام بخاری اس باب میں اس کو اس لیے لائے کہ جیسے حج کے فدیہ میں اختیار ہے تینوں میں سے جو چاہے وہ کرے ایسے ہی قسم کے کفارہ میں بھی قسم کھانے والے کو اختیار ہے کہ تینوں کفاروں میں سے جو قرآن میں مذکورہ ہیں جو کفارہ چاہے ادا کرے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 6708
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6708
6708. حضرت کعب بن عجرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا: ”قریب ہوجاؤ“ پھر میں قریب ہوا تو آپ نے پوچھا: ”کیا تمہارے سر کی جوئیں تمہیں تکلیف دے رہی ہیں؟“ میں نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: ”پھر روزے رکھو یا صدقہ دو یا قربانی کا فدیہ دو،۔“ ابن عون کے طریق سے ایوب نے کہا: روزے تین دن کے ہوں گے قربانی ایک بکری کی اور کھانا چھ مساکین کے لیے ہوگا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6708]
حدیث حاشیہ:
(1)
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”اپنا سر منڈوا دو لیکن تین دن کے روزے رکھو، یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلاؤ یا ایک بکری ذبح کر دو۔
“ (صحیح البخاري، المحصر، حدیث: 1814)
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کا حوالہ اس لیے دیا ہے کہ قسم کے کفارے میں انسان کو اختیار ہے، ان میں سے جسے چاہے اختیار کرے، جیسا کہ حضرت کعب رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کفارۂ اذی، یعنی حالت احرام میں کسی مجبوری اور ضرورت کی بنا پر سر کے بال منڈوانے کے کفارے میں اختیار دیا تھا کیونکہ کفارۂ یمین اور کفارۂ اذی، اختیار میں دونوں ایک جیسے ہیں بلکہ کفارۂ یمین میں ترتیب کا اضافہ ہے، اس لیے قسم کے کفارے میں کھانا کھلانے، لباس دینے اور غلام آزاد کرنے میں اختیار ہے پھر ان تینوں اور تین دن کے روزے رکھنے میں ترتیب ہے، جبکہ کفارۂ اذی میں روزے رکھنے، کھانا کھلانے اور قربانی دینے میں اختیار ہے، ان میں ترتیب وغیرہ نہیں ہے۔
واللہ أعلم (2)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ذکر کرنے کی ایک دوسری توجیہ بیان کی ہے، فرماتے ہیں:
امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود ان لوگوں کی تردید کرنا ہے جو کہتے ہیں:
پانچ مساکین کو کھانا اور پانچ کو لباس دیا جا سکتا ہے، اسی طرح پانچ کو لباس اور نصف غلام آزاد کیا جا سکتا ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ کا یہ موقف ہے کہ آیت کریمہ کے مطابق اختیار کی یہ توجیہ غلط ہے بلکہ دس مساکین کو کھانا دیا جائے یا دس مساکین کو لباس پہنایا جائے یا ایک غلام آزاد کیا جائے۔
اگر تینوں میسر نہیں ہیں تو تین دن کے روزے رکھ لیے جائیں۔
(فتح الباري: 725/11)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 6708