Narrated Zahdam: There was a relation of love and brotherhood between this tribe of Jarm and Al-Ash`ariyin. Once we were with Abu Musa Al-Ash`ari, and then a meal containing chicken was brought to Abu Musa, and there was present, a man from the tribe of Taimillah who was of red complexion as if he were from non-Arab freed slaves. Abu Musa invited him to the meal. He said, "I have seen chickens eating dirty things, so I deemed it filthy and took an oath that I would never eat chicken." On that, Abu Musa said, "Get up, I will narrate to you about that. Once a group of the Ash`ariyin and I went to Allah's Apostle and asked him to provide us with mounts; he said, 'By Allah, I will never give you any mounts nor do I have anything to mount you on.' Then a few camels of war booty were brought to Allah's Apostle , and he asked about us, saying, 'Where are the Ash-'ariyin?' He then ordered five nice camels to be given to us, and when we had departed, we said, 'What have we done? Allah's Apostle had taken the oath not to give us any mounts, and that he had nothing to mount us on, and later he gave us that we might ride? Did we take advantage of the fact that Allah's Apostle had forgotten his oath? By Allah, we will never succeed.' So we went back to him and said to him, 'We came to you to give us mounts, and you took an oath that you would not give us any mounts and that you had nothing to mount us on.' On that he said, 'I did not provide you with mounts, but Allah did. By Allah, if I take an oath to do something, and then find something else better than it, I do that which is better and make expiation for the dissolution of the oath.' "
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 78, Number 644
● صحيح البخاري | 7555 | عبد الله بن قيس | لا أحلف على يمين فأرى غيرها خيرا منها إلا أتيت الذي هو خير منه وتحللتها |
● صحيح البخاري | 6680 | عبد الله بن قيس | لا أحلف على يمين فأرى غيرها خيرا منها إلا أتيت الذي هو خير وتحللتها |
● صحيح البخاري | 6721 | عبد الله بن قيس | لا أحلف على يمين فأرى غيرها خيرا منها إلا أتيت الذي هو خير وتحللتها |
● صحيح البخاري | 6649 | عبد الله بن قيس | لا أحلف على يمين فأرى غيرها خيرا منها إلا أتيت الذي هو خير وتحللتها |
● صحيح البخاري | 6718 | عبد الله بن قيس | لا أحلف على يمين فأرى غيرها خيرا منها إلا كفرت عن يميني وأتيت الذي هو خير |
● صحيح البخاري | 5518 | عبد الله بن قيس | لا أحلف على يمين فأرى غيرها خيرا منها إلا أتيت الذي هو خير وتحللتها |
● صحيح البخاري | 3133 | عبد الله بن قيس | لا أحلف على يمين فأرى غيرها خيرا منها إلا أتيت الذي هو خير وتحللتها |
● صحيح البخاري | 6623 | عبد الله بن قيس | لا أحلف على يمين فأرى غيرها خيرا منها إلا كفرت عن يميني وأتيت الذي هو خير أو أتيت الذي هو خير وكفرت عن يميني |
● صحيح البخاري | 4385 | عبد الله بن قيس | لا أحلف على يمين فأرى غيرها خيرا منها إلا أتيت الذي هو خير منها |
● صحيح مسلم | 4263 | عبد الله بن قيس | لا أحلف على يمين ثم أرى خيرا منها إلا كفرت عن يميني وأتيت الذي هو خير |
● صحيح مسلم | 4265 | عبد الله بن قيس | لا أحلف على يمين فأرى غيرها خيرا منها إلا أتيت الذي هو خير وتحللتها فانطلقوا فإنما حملكم الله |
● صحيح مسلم | 4269 | عبد الله بن قيس | لا أحلف على يمين أرى غيرها خيرا منها إلا أتيت الذي هو خير |
● سنن أبي داود | 3276 | عبد الله بن قيس | لا أحلف على يمين فأرى غيرها خيرا منها إلا كفرت عن يميني وأتيت الذي هو خي |
● سنن النسائى الصغرى | 3811 | عبد الله بن قيس | لا أحلف على يمين فأرى غيرها خيرا منها إلا كفرت عن يميني وأتيت الذي هو خير |
● سنن النسائى الصغرى | 3810 | عبد الله بن قيس | ما على الأرض يمين أحلف عليها فأرى غيرها خيرا منها إلا أتيته |
● سنن ابن ماجه | 2107 | عبد الله بن قيس | لا أحلف على يمين فأرى خيرا منها إلا كفرت عن يميني وأتيت الذي هو خير أوقال أتيت الذي هو خير وكفرت عن يميني |
● المعجم الصغير للطبراني | 12 | عبد الله بن قيس | من حلف على يمين فرأى غيرها خيرا منها فليأت الذي هو خير وليكفر عن يمينه |
● مسندالحميدي | 783 | عبد الله بن قيس | رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يأكله |
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2107
´جس نے کسی بات پر قسم کھائی پھر اس کے خلاف کرنا بہتر سمجھا تو اس کے حکم کا بیان۔`
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اشعری قبیلہ کے چند لوگوں کے ہمراہ آپ سے سواری مانگنے کے لیے حاضر ہوا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کی قسم! میں تم کو سواری نہیں دوں گا، اور میرے پاس سواری ہے بھی نہیں کہ تم کو دوں“، پھر ہم جب تک اللہ نے چاہا ٹھہرے رہے، پھر آپ کے پاس زکاۃ کے اونٹ آ گئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لیے سفید کوہان والے تین اونٹ دینے کا حکم دیا، جب ہم انہیں لے کر چلے تو ہم میں سے ایک نے دوسرے سے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الكفارات/حدیث: 2107]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
قسم کی تین قسمیں ہیں:
(ا)
لغو:
جس میں قسم کا لفظ بولا جائے لیکن قسم کا ارادہ نہ ہو جیسے بعض لوگ عادت کے طور پر بلا ارادہ قسم کے لفظ بول دیتے ہیں۔
اس پر کوئی مواخذہ نہیں تاہم اس سے اجتناب بہتر ہے۔
(ب)
غموس:
یعنی جھوٹی قسم جو کسی کو دھوکا دینے کے لیے کھائی جائے۔
یہ کبیرہ گناہ ہے، اس پر توبہ استغفار کرنا چاہیے اور آئندہ بچنے کی پوری کوشش کرنی چاہیے تاہم اس پر کفارہ واجب نہیں۔
(ج)
معقدہ:
جو مستقبل میں کسی کام کرنے کا ارادہ ظاہر کرتے ہوئے کلام میں تاکید اور پختگی کے لیے ارادہ نیت سے کھائے۔
اس قسم کو توڑنے پر کفارہ ادا کرنا ضروری ہے۔ (دیکھیئے:
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف سورہ المائدہ 5: 89)
۔
(2)
قسم کا کفارہ دس غریب آدمیوں کو کھانا کھلانا یا انہیں لباس مہیا کرنا یا ایک غلام آزاد کرنا ہے۔ (سورۃ مائدۃ: 89)
(3)
ایک آدمی کو خوراک کے طور پر ایک مدغلہ (تقریبا چھ سو گرام)
کافی ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے رمضان میں روزے کی حالت میں ہم بستری کر لینے والے کو ساتھ مسکینوں میں تقسیم کرنے کے لیے پندرہ صاع کھجوریں دی تھیں۔
اور ایک صاع میں چار مد ہوتے ہیں۔
بعض علماء کے نزدیک خوراک اور لباس میں عرف کا اعتبار ہے یعنی جسے عام لوگ کہیں کہ اس نے کھانا کھلا دیا قرآن مجید سے یہی ارشارہ معلوم ہوتا ہے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ﴾ (المائدۃ، 5: 89)
”اوسط درجے کا جو تم اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہو۔“
یعنی اس کی مقدار مقرر نہیں۔
اپنی استطاعت کے مطابق سادہ یا عمدہ کھانا یا لباس دینا چاہیے۔
(4)
نیکی کا کام نہ کرنے یا گناہ کرنے کی قسم کھانا بھی ناجائز ہے۔
اس پر بھی کفارہ ادا کرنا چاہیے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَلَا تَجْعَلُوا اللَّـهَ عُرْضَةً لِّأَيْمَانِكُمْ أَن تَبَرُّوا وَتَتَّقُوا وَتُصْلِحُوا بَيْنَ النَّاسِ﴾ (البقرۃ، 2: 224)
”اور اللہ تعالیٰ کو اپنی قسموں کا (اس طرح)
نشانہ نہ بناؤ کہ بھلائی اور پرہیز گاری اور لوگوں کے درمیان صلح کرانا چھوڑ بیٹھو۔“
(5)
جو کام نہ کرنے کی قسم کھائی ہو کفارہ اسے انجام دینے سے پہلے بھی دیا جاسکتا ہے بعد میں بھی۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2107
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6649
6649. حضرت زہدم سے روایت ہے انہوں نے کہا: قبیلہ جرم اور اشعری حضرات کے درمیان محبت اور بھائی چارہ تھا۔ ہم ایک دفعہ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کی خدمت میں موجود تھے کہ انہیں کھانا پیش کیا گیا جس میں مرغ کا گوشت تھا۔ اس وقت آپ کے پاس قبیلہ بنو تیم اللہ سے ایک سرخ رنگ کا آدمی موجود تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ غلاموں میں سے ہے۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ نے اس کو کھانے کی دعوت دی تو اس نے کہا: میں نے مرغی کو گندی چیز کھاتے دیکھا تو مجھے گھن آئی، پھر میں نے قسم کھالی کہ آئندہ میں اس کا گوشت نہیں کھاؤں گا۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ نے اس سے فرمایا: کھڑے ہو جاؤ! میں تمہیں اس کے متعلق ایک حدیث سناتا ہوں۔ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس قبیلہ اشعر کے چند لوگوں کے ہمراہ حاضر ہوا، ہم نے آپ سے سواری کا مطالبہ کیا تو آپ نے فرمایا: ”اللہ کی قسم! میں تمہیں سواری نہیں دے سکتا اور نہ ذاتی طور پر میرے پاس کوئی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6649]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ غیر مفید قسم کا کفارہ ادا کر کے توڑ دینا سنت نبوی ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 6649
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6649
6649. حضرت زہدم سے روایت ہے انہوں نے کہا: قبیلہ جرم اور اشعری حضرات کے درمیان محبت اور بھائی چارہ تھا۔ ہم ایک دفعہ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کی خدمت میں موجود تھے کہ انہیں کھانا پیش کیا گیا جس میں مرغ کا گوشت تھا۔ اس وقت آپ کے پاس قبیلہ بنو تیم اللہ سے ایک سرخ رنگ کا آدمی موجود تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ غلاموں میں سے ہے۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ نے اس کو کھانے کی دعوت دی تو اس نے کہا: میں نے مرغی کو گندی چیز کھاتے دیکھا تو مجھے گھن آئی، پھر میں نے قسم کھالی کہ آئندہ میں اس کا گوشت نہیں کھاؤں گا۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ نے اس سے فرمایا: کھڑے ہو جاؤ! میں تمہیں اس کے متعلق ایک حدیث سناتا ہوں۔ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس قبیلہ اشعر کے چند لوگوں کے ہمراہ حاضر ہوا، ہم نے آپ سے سواری کا مطالبہ کیا تو آپ نے فرمایا: ”اللہ کی قسم! میں تمہیں سواری نہیں دے سکتا اور نہ ذاتی طور پر میرے پاس کوئی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6649]
حدیث حاشیہ:
(1)
صحیح بخاری ہی کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ اونٹ حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے خرید کر اشعری حضرات کو عنایت فرمائے تھے جبکہ اس حدیث کے مطابق وہ غنیمت کے طور پر آپ کو ملے تھے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ مذکورہ اونٹ غنیمت ہی کے تھے لیکن حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے حصے میں جو اونٹ آئے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ خرید کر اشعری حضرات کو عنایت کیے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ دو الگ الگ واقعات ہوں۔
واللہ أعلم۔
(2)
اس حدیث کی عنوان سے مطابقت اس طرح ہے کہ اس حدیث کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قسم کی کیفیت بتائی گئی ہے کہ اس میں کفارہ دیا گیا اور کفارہ اس قسم پر ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے نام پر اٹھائی جائے، لہذا معلوم ہوا کہ آپ صرف اللہ تعالیٰ کی قسم اٹھاتے تھے، غیراللہ کی قسم اٹھانا آپ کا معمول نہ تھا۔
واللہ أعلم (فتح الباري: 653/11)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 6649