الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6404
6404. حضرت عمرو بن میمون سے روایت ہے کہ جس نے دس مرتبہ یہ کلمہ کہا اور وہ ایسا ہوگا اس نے اولاد اسماعیل سے ایک غلام آزاد کیا (راوی حدیث) حضرت عمر بن ابی زائدہ نے کہا: ہم سے عبداللہ بن ابو سفر نے بیان کیا، ان سے امام شعبی نے ان سے ربیع بن خثیم نے یہی مضمون بیان کیا تو میں نے ربیع سے پوچھا کہ تم نے یہ حدیث کس سے سنی ہے؟ انہوں نے کہا: عمرو بن میمون سے۔ پھر میں عمرو بن میمون کے پاس آیا اور ان سے پوچھا کہ تم نے یہ حدیث کس سے سنی ہے؟ انہوں نے کہا: ابن ابی یعلی سے۔ میں ابن ابی یعلی کے پاس آیا اور ان سے پوچھا کہ تم نے یہ حدیث کس سے سنی ہے؟ انہوں نے کہا: ابو ایوب انصاری سے اور وہ اسے نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں ابراہیم بن یوسف اپنے باپ سے بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں وہ ابو اسحاق سے انہوں نےکہا: مجھے عمرو بن میمون نے بیان کیا وہ عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ سے، وہ حضرت۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6404]
حدیث حاشیہ:
(1)
یہ کلمۂ توحید ہم جیسے گناہ گاروں کے لیے اکسیر اعظم کی حیثیت رکھتا ہے۔
اگر اس کلمے کو ایک دن میں کم از کم سو مرتبہ پڑھ لیا کریں تو گناہوں کے کفارہ کے علاوہ عقیدۂ توحید اس قدر مضبوط ہو جائے گا کہ اسے پڑھنے والے توحید کی برکت سے ایک خاص ایمانی قوت محسوس کریں گے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
بعض روایات میں ہے کہ شام کے وقت یہ وظیفہ کرنے والے کو بھی یہی اجر ملے گا۔
(2)
حدیث کے ظاہر سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اجروثواب ہر شخص کو ملے گا جو اس وظیفے کو حرز جان بنائے گا، خواہ اسے مسلسل پڑھے یا متفرق طور پر وقفے وقفے سے ادا کرے۔
شروع دن میں پڑھے یا دن کے آخری حصے میں ادا کرے لیکن بہتر یہ ہے کہ دن کے آغاز میں یہ کلمہ سو مرتبہ مسلسل پڑھے تاکہ سارا دن شیطان سے حفاظت میں رہے۔
اسی طرح رات کے آغاز میں اس عمل کو دہرائے تاکہ تمام رات شیطانی اثرات سے محفوظ رہے۔
(فتح الباري: 246/11) (3)
ہمارے رجحان کے مطابق مسنون اذکار میں اس قدر برکات و فوائد ہیں کہ ان کے ساتھ مزید اذکار پیوند کرنے کی قطعاً ضرورت نہیں، پھر اپنے خود ساختہ اذکار باعث ثواب بھی نہیں ہوتے۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں یہ وظیفہ صبح کی نماز کے بعد پڑھنے کا ذکر ہے اور اس میں بيده الخير کا اضافہ ہے۔
(سنن ابن ماجة، الأدب، حدیث: 3799)
لیکن اس کی سند عطیہ عوفی کی وجہ سے ضعیف ہے۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 6404