33. بَابُ قَوْلِ الإِمَامِ لِلْمُتَلاَعِنَيْنِ إِنَّ أَحَدَكُمَا كَاذِبٌ فَهَلْ مِنْكُمَا تَائِبٌ:
33. باب: حاکم لعان کرنے والوں سے یہ کہنا تم میں سے ایک ضرور جھوٹا ہے تو کیا وہ توبہ کرتا ہے؟
(33) Chapter. The Saying of Imam (ruler) to those who are involved in a case of Lian: “Surely one of you two is a liar; so will one of you repent (to Allah)?”
Narrated Sa`id bin Jubair: I asked Ibn `Umar about those who were involved in a case of Lien. He said, "The Prophet said to those who were involved in a case of Lien, 'Your accounts are with Allah. One of you two is a liar, and you (the husband) have no right over her (she is divorced)." The man said, 'What about my property (Mahr) ?' The Prophet said, 'You have no right to get back your property. If you have told the truth about her then your property was for the consummation of your marriage with her; and if you told a lie about her, then you are less rightful to get your property back.' " Sufyan, a sub-narrator said: I learned the Hadith from `Amr. Narrated Aiyub: I heard Sa`id bin Jubair saying, "I asked Ibn `Umar, 'If a man (accuses his wife for an illegal sexual intercourse and) carries out the process of Lian (what will happen)?' Ibn `Umar set two of his fingers apart. (Sufyan set his index finger and middle finger apart.) Ibn `Umar said, 'The Prophet separated the couple of Bani Al-Ajlan by divorce and said thrice, "Allah knows that one of you two is a liar; so will one of you repent (to Allah)?' "
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 63, Number 232
● صحيح البخاري | 5306 | عبد الله بن عمر | أحلفهما النبي فرق بينهما |
● صحيح البخاري | 5349 | عبد الله بن عمر | يعلم أن أحدكما كاذب فهل منكما تائب فأبيا فقال الله يعلم أن أحدكما كاذب فهل منكما تائب فأبيا فرق بينهما |
● صحيح البخاري | 5313 | عبد الله بن عمر | فرق بين رجل وامرأة قذفها وأحلفهما |
● صحيح البخاري | 4748 | عبد الله بن عمر | تلاعنا كما قال الله قضى بالولد للمرأة فرق بين المتلاعنين |
● صحيح البخاري | 6748 | عبد الله بن عمر | رجلا لاعن امرأته في زمن النبي انتفى من ولدها فرق النبي بينهما ألحق الولد بالمرأة |
● صحيح البخاري | 5311 | عبد الله بن عمر | يعلم أن أحدكما كاذب فهل منكما تائب فأبيا وقال الله يعلم أن أحدكما كاذب فهل منكما تائب فأبيا فقال الله يعلم أن أحدكما كاذب فهل منكما تائب فأبيا فرق بينهما |
● صحيح البخاري | 5314 | عبد الله بن عمر | لاعن النبي بين رجل وامرأة من الأنصار فرق بينهما |
● صحيح البخاري | 5315 | عبد الله بن عمر | لاعن بين رجل وامرأته انتفى من ولدها فرق بينهما ألحق الولد بالمرأة |
● صحيح البخاري | 5312 | عبد الله بن عمر | حسابكما على الله أحدكما كاذب لا سبيل لك عليها قال مالي قال لا مال لك إن كنت صدقت عليها فهو بما استحللت من فرجها وإن كنت كذبت عليها فذاك أبعد لك |
● صحيح مسلم | 3752 | عبد الله بن عمر | فرق رسول الله بينهما ألحق الولد بأمه قال نعم |
● صحيح مسلم | 3746 | عبد الله بن عمر | تلاهن عليه ووعظه وذكره وأخبره أن عذاب الدنيا أهون من عذاب الآخرة قال لا والذي بعثك بالحق ما كذبت عليها ثم دعاها فوعظها وذكرها وأخبرها أن عذاب الدنيا أهون من عذاب الآخرة قالت لا والذي بعثك بالحق إنه لكاذب فبدأ بالرجل فشهد أربع شهادات بالله إنه لمن الص |
● صحيح مسلم | 3753 | عبد الله بن عمر | لاعن رسول الله بين رجل من الأنصار وامرأته فرق بينهما |
● صحيح مسلم | 3751 | عبد الله بن عمر | فرق نبي الله بين أخوي بني العجلان |
● صحيح مسلم | 3749 | عبد الله بن عمر | الله يعلم أن أحدكما كاذب فهل منكما تائب |
● صحيح مسلم | 3748 | عبد الله بن عمر | حسابكما على الله أحدكما كاذب لا سبيل لك عليها قال يا رسول الله مالي قال لا مال لك إن كنت صدقت عليها فهو بما استحللت من فرجها وإن كنت كذبت عليها فذاك أبعد لك منها |
● جامع الترمذي | 1202 | عبد الله بن عمر | لو أن أحدنا رأى امرأته على فاحشة كيف يصنع إن تكلم تكلم بأمر عظيم وإن سكت سكت على أمر عظيم قال فسكت النبي فلم يجبه فلما كان بعد ذلك أتى النبي فقال إن الذي سألتك عنه قد ابتليت به فأنزل الله هذه الآيات التي في سورة النور |
● جامع الترمذي | 1203 | عبد الله بن عمر | فرق النبي بينهما ألحق الولد بالأم |
● جامع الترمذي | 3178 | عبد الله بن عمر | ووعظها وذكرها وأخبرها أن عذاب الدنيا أهون من عذاب الآخرة فقالت لا والذي بعثك بالحق ما صدق فبدأ بالرجل فشهد أربع شهادات بالله إنه لمن الصادقين والخامسة أن لعنة الله عليه إن كان من الكاذبين ثم ثنى بالمرأة فشهدت أربع شهادات بالله إنه لمن الكاذبين والخامسة أن |
● سنن أبي داود | 2259 | عبد الله بن عمر | فرق رسول الله بينهما ألحق الولد بالمرأة |
● سنن أبي داود | 2257 | عبد الله بن عمر | لا مال لك إن كنت صدقت عليها فهو بما استحللت من فرجها وإن كنت كذبت عليها فذلك أبعد لك |
● سنن أبي داود | 2258 | عبد الله بن عمر | الله يعلم أن أحدكما كاذب فهل منكما تائب يرددها ثلاث مرات فأبيا فرق بينهما |
● سنن النسائى الصغرى | 3507 | عبد الله بن عمر | لاعن رسول الله بين رجل وامرأته فرق بينهما وألحق الولد بالأم |
● سنن النسائى الصغرى | 3506 | عبد الله بن عمر | حسابكما على الله أحدكما كاذب ولا سبيل لك عليها قال يا رسول الله مالي قال لا مال لك إن كنت صدقت عليها فهو بما استحللت من فرجها وإن كنت كذبت عليها فذاك أبعد لك |
● سنن النسائى الصغرى | 3505 | عبد الله بن عمر | الله يعلم إن أحدكما كاذب فهل منكما تائب قال لهما ثلاثا فأبيا فرق بينهما |
● سنن النسائى الصغرى | 3504 | عبد الله بن عمر | فرق رسول الله بين أخوي بني العجلان |
● سنن النسائى الصغرى | 3503 | عبد الله بن عمر | الذي سألتك ابتليت به فأنزل الله هؤلاء الآيات في |
● سنن ابن ماجه | 2069 | عبد الله بن عمر | فرق رسول الله بينهما ألحق الولد بالمرأة |
● موطا امام مالك رواية ابن القاسم | 371 | عبد الله بن عمر | وانتفى من ولدها، ففرق رسول الله صلى الله عليه وسلم بينهما والحق الولد بالمراة |
● بلوغ المرام | 937 | عبد الله بن عمر | حسابكما على الله ، أحدكما كاذب ، لا سبيل لك عليها |
● مسندالحميدي | 687 | عبد الله بن عمر | حسابكما على الله، أحدكما كاذب لا سبيل لك عليها |
● مسندالحميدي | 688 | عبد الله بن عمر | فرق رسول الله صلى الله عليه وسلم بين أخوي بني عجلان |
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 371
´لعان کا بیان`
«. . . 232- وبه: أن رجلا لاعن امرأته فى زمن رسول الله صلى الله عليه وسلم وانتفى من ولدها، ففرق رسول الله صلى الله عليه وسلم بينهما وألحق الولد بالمرأة. . . .»
”. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک آدمی نے اپنی بیوی کے ساتھ لعان کیا، پھر اس عورت کے بچے کا باپ ہونے سے انکار کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کے درمیان جدائی ڈال دی اور بچہ ماں کو سونپ دیا یعنی بچہ ماں کی طرف منسوب ہوا . . .“ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 371]
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 5315، ومسلم 8/1494، من حديث مالك به]
تفقہ:
➊ لعان کیلئے دیکھئے: حدیث سابق: 6
➋ لعان شدہ عورت کے بچے کی نسبت اس کی ماں کی طرف ہوتی ہے۔ اس بچے کو اس عورت کے شوہر کی طرف منسوب نہیں کیا جاتا لہٰذا یہ بچہ لعان والے باپ کی وراثت کا حقدار نہیں ہوتا اور نہ اس کا ”باپ“ اس کا وارث ہوتا ہے بلکہ اس کی ماں عصبہ ہوتی ہے۔
➌ صحیح بخاری کی احادیث سے ثابت ہے کہ جب لعان کرنے والے نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میاں بیوی کے درمیان جدائی ڈال دی لہٰذا جدائی کا سبب طلاق ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ جدائی کا سبب لعان ہے لیکن یہ قول محل نظر ہے۔
➍ جو شخص اپنی بیوی سے لعان کر تا ہے اور اس پر زنا کی تہمت لگا تا ہے تو اس شخص پر حد قذف نہیں لگتی۔
➎ قول راجح میں زنا کا عینی گواہ قاذف کے حکم میں نہیں ہے اگر چہ چار کا نصاب بھی پورا نہ ہو۔
➏ حاکم پر لازم ہے کہ شرعی احکامات طاقت سے نافذ کرے۔
➐ بعض علماء کہتے ہیں کہ اگر شوہر اپنی بیوی پر زنا کی تہمت لگائے اور لعان نہ کرے تو اسے (شوہر کو) کوڑے لگیں گے۔ دیکھئے: [التمهيد 15/38 بحواله ابن ابي شيبه عن الشعبي وسنده حسن]
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 232
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2069
´لعان کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک مرد نے اپنی بیوی سے لعان کیا، اور اس کے بچے کا انکار کر دیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں میں جدائی کرا دی اور بچہ کو ماں کو دیدیا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطلاق/حدیث: 2069]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
لعان سے نکاح ختم ہوجاتا ہے، اس کے بعد یہ مرد اس عورت سے کبھی نکاح نہیں کرسکتا۔
(2)
لعان کی صورت میں عورت کا خاوند بچے کا باپ نہیں کہلائے گا۔
بچہ اس مرد کا وارث بھی نہیں ہوگا، البتہ عورت کےماں ہونے میں کوئی شک نہیں، اس لیے وہ اپنی ماں اور ننھیالی رشتے داروں کا وارث ہوگا اور وہ اس کے وارث ہوں گے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2069
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1202
´لعان کا بیان۔`
سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ مصعب بن زبیر کے زمانہ امارت میں مجھ سے لعان ۱؎ کرنے والوں کے بارے میں پوچھا گیا کہ کیا ان کے درمیان تفریق کر دی جائے؟ تو میں نہیں جان سکا کہ میں انہیں کیا جواب دوں؟ چنانچہ میں اپنی جگہ سے اٹھ کر عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کے گھر آیا اور اندر آنے کی اجازت مانگی، بتایا گیا کہ وہ قیلولہ کر رہے ہیں، لیکن انہوں نے میری بات سن لی، اور کہا: ابن جبیر! آ جاؤ تمہیں کوئی ضرورت ہی لے کر آئی ہو گی۔ سعید بن جبیر کہتے ہیں: میں ان کے پاس گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ پالان پر بچھائے جانے والے کمبل پر لیٹے ہیں۔ میں نے کہا: ابوعبدالرحمٰن! کیا لعان کرنے ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الطلاق واللعان/حدیث: 1202]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
لعان کا حکم آیت کریمہ ﴿وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُن لَّهُمْ شُهَدَاء﴾ (النور: 6) میں ہے اس کا طریقہ یہ ہے کہ عدالت میں یا کسی حاکم مجازکے سامنے پہلے مرد چار بار اللہ کا نام لے کرگواہی دے کہ میں سچا ہوں اورپانچویں بار کہے کہ اگر میں جھوٹا ہوں تو مجھ پر اللہ کی لعنت ہو،
اسی طرح عورت بھی اللہ کا نام لے کر چاربار گواہی دے کہ اس کا شوہر جھوٹا ہے اورپانچویں بار کہے کہ اگر اس کا شوہرسچا ہو تو مجھ پر اللہ کا غضب نازل ہو،
ایسا کہنے سے شوہر حد قذف (زناکی تہمت لگانے پر عائد سزا) سے بچ جائے گا اوربیوی زنا کی سزاسے بچ جائے گی اور دونوں کے درمیان ہمیشہ کے لیے جدائی ہوجائے گی۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1202
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2257
´لعان کا بیان۔`
سعید بن جبیر کہتے ہیں: میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کو کہتے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں لعان کرنے والوں سے فرمایا: ”تم دونوں کا حساب اللہ پر ہے، تم میں سے ایک تو جھوٹا ہے ہی (مرد سے فرمایا) اب تجھے اس پر کچھ اختیار نہیں“، اس پر اس نے کہا: اللہ کے رسول! میرے مال کا کیا ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارا کوئی مال نہیں، اگر تم اس پر تہمت لگانے میں سچے ہو تو مال کے بدلے اس کی شرمگاہ حلال کر چکے ہو اور اگر تم نے اس پر جھوٹ بولا ہے تب تو کسی طرح بھی تم مال کے مستحق نہیں۔“ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2257]
فوائد ومسائل:
لعان کی صورت میں شوہرکوحق سے کچھ نہیں ملے گا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2257
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5312
5312. سیدنا سعید بن جبیر سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں سیدنا ابن عمر ؓ سے لعان کرنے والوں کا حکم پوچھا تو انہوں نے بیان کیا کہ نبی ﷺ نے لعان کرنے والوں سے فرمایا تھا: ”تمہارا حساب تو اللہ تعالٰی کے ذمے ہے لیکن تم میں سے ایک ضرور جھوٹا ہے۔ اب تمہاری بیوی پر تمیں کوئی اختیار نہیں رہا۔“ اس نے عرض کی: میرے مال کے متعلق کیا حکم ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اب وہ تمہارا مال نہیں رہا۔ اگر تم اس معاملے میں سچے ہوتو تمہارا یہ مال، اس کے بدلے میں ختم ہو چکا ہے جو تم نے اس کی شرم گاہ کو اپنے لیے حلال کیا تھا۔ اور اگر تم نے اس پر جھوٹی تہمت لگائی تھی تو یہ مال تجھ سے اور زیادہ دور ہوگیا ہے۔“ سفیان نے کہا کہ میں نے یہ حدیث عمرو بن دینار سے یاد کی۔ ایوب نے کہا: میں نے سعید بن جبیر سے سنا، انہوں نے کہا کہ میں سیدنا ابن عمر ؓ سے ایسے شخص کے متعلق پوچھا جس نے اپنی بیوی سے لعان۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5312]
حدیث حاشیہ:
حاصل یہ ہوا کہ سفیان نے اس حدیث کو عمرو بن دینار اور ایوب سختیانی دونوں سے روایت کیا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 5312
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5312
5312. سیدنا سعید بن جبیر سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں سیدنا ابن عمر ؓ سے لعان کرنے والوں کا حکم پوچھا تو انہوں نے بیان کیا کہ نبی ﷺ نے لعان کرنے والوں سے فرمایا تھا: ”تمہارا حساب تو اللہ تعالٰی کے ذمے ہے لیکن تم میں سے ایک ضرور جھوٹا ہے۔ اب تمہاری بیوی پر تمیں کوئی اختیار نہیں رہا۔“ اس نے عرض کی: میرے مال کے متعلق کیا حکم ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اب وہ تمہارا مال نہیں رہا۔ اگر تم اس معاملے میں سچے ہوتو تمہارا یہ مال، اس کے بدلے میں ختم ہو چکا ہے جو تم نے اس کی شرم گاہ کو اپنے لیے حلال کیا تھا۔ اور اگر تم نے اس پر جھوٹی تہمت لگائی تھی تو یہ مال تجھ سے اور زیادہ دور ہوگیا ہے۔“ سفیان نے کہا کہ میں نے یہ حدیث عمرو بن دینار سے یاد کی۔ ایوب نے کہا: میں نے سعید بن جبیر سے سنا، انہوں نے کہا کہ میں سیدنا ابن عمر ؓ سے ایسے شخص کے متعلق پوچھا جس نے اپنی بیوی سے لعان۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5312]
حدیث حاشیہ:
(1)
عنوان اور پیش کی گئی حدیث کا مقصد ہے کہ حاکم وقت کو چاہیے کہ وہ حالات کے پیش نظر لعان کرنے والوں کو وعظ و نصیحت کرے، لعان سے پہلے بھی کیونکہ ان دونوں کو اس کی سنگینی سے آگاہ کرنا چاہیے آخر ان میں سے ایک تو ضرور جھوٹا ہے، لہٰذا جھوٹے آدمی کو اس اقدام سے بچنا چاہیے اور ایک بے گناہ اور معصوم پر تہمت زنا سے باز رہنا چاہیے اور لعان کے بعد بھی وہ اپنا دعوت و ارشاد کا فریضہ ادا کرے تا کہ اگر کسی نے جھوٹ بولا ہےتو اس سے توبہ کرے اور اس گناہ کی تلافی کا سامان کرے۔
(2)
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی اس حدیث میں لعان سے پہلے اور بعد میں وعظ کرنے کے دونوں احتمال ہیں، البتہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث سے معلوم ہوتاہے کہ یہ وعظ لعان سے پہلے ہونا چاہیے کیونکہ جب لعان سے متعلقہ آیات اتریں تو آپ نے ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ اور اس کی بیوی کو بلایا کہ اللہ خوب جانتا ہے کہ تم میں سے ایک جھوٹا ہے۔
کیا تم میں سے کوئی تائب ہوگا؟ یہ وعظ سن کر حضرت ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ نے کہا:
اللہ کے رسول! میں قسم اٹھاتا ہوں کہ میں سچا ہوں۔
(فتح الباري: 568/9)
بہرحال لعان کرنے والوں کو وعظ و نصیحت لعان سے پہلے اور لعان کے بعد دونوں وقت کرنی چاہیے شاید ان میں سے کسی کے دل میں بات اتر جائے اور اپنے گناہ کی تلافی کرے۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 5312