حدثنا فروة بن ابي المغراء، حدثنا علي بن مسهر، عن هشام، عن ابيه، عن عائشة، قالت:" خرجت سودة بنت زمعة ليلا، فرآها عمر فعرفها، فقال: إنك والله يا سودة ما تخفين علينا، فرجعت إلى النبي صلى الله عليه وسلم فذكرت ذلك له وهو في حجرتي يتعشى وإن في يده لعرقا، فانزل الله عليه، فرفع عنه وهو يقول: قد اذن الله لكن ان تخرجن لحوائجكن".حَدَّثَنَا فَرْوَةُ بْنُ أَبِي الْمَغْرَاءِ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:" خَرَجَتْ سَوْدَةُ بِنْتُ زَمْعَةَ لَيْلًا، فَرَآهَا عُمَرُ فَعَرَفَهَا، فَقَالَ: إِنَّكِ وَاللَّهِ يَا سَوْدَةُ مَا تَخْفَيْنَ عَلَيْنَا، فَرَجَعَتْ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَتْ ذَلِكَ لَهُ وَهُوَ فِي حُجْرَتِي يَتَعَشَّى وَإِنَّ فِي يَدِهِ لَعَرْقًا، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَلَيْهِ، فَرُفِعَ عَنْهُ وَهُوَ يَقُولُ: قَدْ أَذِنَ اللَّهُ لَكُنَّ أَنْ تَخْرُجْنَ لِحَوَائِجِكُنَّ".
ہم سے فروہ بن ابی المغراء نے بیان کیا، کہا ہم سے علی بن مسہر نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ام المؤمنین سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا رات کے وقت باہر نکلیں تو عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں دیکھ لیا اور پہچان گئے۔ پھر کہا: اے سودہ، اللہ کی قسم! تم ہم سے چھپ نہیں سکتیں۔ جب سودہ رضی اللہ عنہا واپس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت میرے حجرے میں شام کا کھانا کھا رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں گوشت کی ایک ہڈی تھی۔ اس وقت آپ پر وحی نازل ہونی شروع ہوئی اور جب نزول وحی کا سلسلہ ختم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہیں اجازت دی گئی ہے کہ تم اپنی ضروریات کے لیے باہر نکل سکتی ہو۔
Narrated `Aisha: Once Sa`da bint Zam`a went out at night for some need, and `Umar saw her, and recognizing her, he said (to her), "By Allah, O Sa`da! You cannot hide yourself from us." So she returned to the Prophet and mentioned that to him while he was sitting in my dwelling taking his supper and holding a bone covered with meat in his hand. Then the Divine Inspiration was revealed to him and when that state was over, he (the Prophet was saying: "O women! You have been allowed by Allah to go out for your needs."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 62, Number 164
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5237
5237. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: ام المومنین سیدہ سودہ ؓ رات کے وقت باہر نکلیں تو سیدنا عمر بن خطاب ؓ نے انہیں دیکھا اور پہچان گئے پھر کہا: اللہ کی قسم! اے سودہ! تو ہم سے چھپ نہیں سکتی ہو۔ سیدہ سودہ ؓ جب نبی ﷺ کے پاس آئیں تو انہوں نے آپ سے اس امر کا ذکر کیا جبکہ آپ ﷺ اس وقت میرے گھر شام کا کھانا کھا رہے تھے۔ آپ کے ہاتھ میں گوشت والی ایک ہڈی تھی، اس وقت آپ پر نزول وحی کا آغاز ہوا۔ جب یہ کیفیت ختم ہوئی تو آپ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے تمہیں اجازت دی ہے کہ تم اپنی ضروریات کے لیے باہر جا سکتی ہو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:5237]
حدیث حاشیہ: آج کے دورِ نازک میں ضروریات زندگی اور معاشی جد و جہد اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ اکثر مواقع پر عورتوں کو بھی گھر سے باہر نکلنا ضروری ہو جاتا ہے۔ اسی لئے اسلام نے اس بارے میں تنگی نہیں رکھی ہے، ہاں یہ ضروری ہے کہ شرعی حدود میں پردہ کر کے عورتیں باہر نکلیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 5237
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5237
5237. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: ام المومنین سیدہ سودہ ؓ رات کے وقت باہر نکلیں تو سیدنا عمر بن خطاب ؓ نے انہیں دیکھا اور پہچان گئے پھر کہا: اللہ کی قسم! اے سودہ! تو ہم سے چھپ نہیں سکتی ہو۔ سیدہ سودہ ؓ جب نبی ﷺ کے پاس آئیں تو انہوں نے آپ سے اس امر کا ذکر کیا جبکہ آپ ﷺ اس وقت میرے گھر شام کا کھانا کھا رہے تھے۔ آپ کے ہاتھ میں گوشت والی ایک ہڈی تھی، اس وقت آپ پر نزول وحی کا آغاز ہوا۔ جب یہ کیفیت ختم ہوئی تو آپ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے تمہیں اجازت دی ہے کہ تم اپنی ضروریات کے لیے باہر جا سکتی ہو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:5237]
حدیث حاشیہ: (1) جن امور کے لیے عورتوں کا باہر جانا مباح ہو، مثلاً: والدین کی زیارت اور عزیز واقارب سے ملاقات تو ایسے کاموں کے لیے انھیں باہر جانے کی اجازت ہے، اس کے علاوہ ضروری حاجات کے لیے بھی ان کا باہر جانا جائز ہے۔ (2) آج کے نازک دور میں ضروریات زندگی اور معاشی جد و جہد اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ اکثر مواقع پر عورتوں کا بھی گھر سے باہر نکلنا ضروری ہو جاتا ہے۔ ایسے حالات میں اسلام نے کوئی تنگی نہیں رکھی، ہاں یہ ضروری ہے کہ شرعی حدود میں رہتے ہوئے پردہ کر کے باہر نکلیں۔ والله اعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 5237