Narrated Nafi`: Ibn `Umar said, "While the Prophet was on the pulpit, a man asked him how to offer the night prayers. He replied, 'Pray two rak`at at a time and then two and then two and so on, and if you are afraid of the dawn (the approach of the time of the Fajr prayer) pray one rak`a and that will be the witr for all the rak`at which you have offered." Ibn `Umar said, "The last rak`at of the night prayer should be odd, for the Prophet ordered it to be so.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 8, Number 461
● صحيح البخاري | 993 | عبد الله بن عمر | صلاة الليل مثنى مثنى إذا أردت أن تنصرف فاركع ركعة توتر لك ما صليت |
● صحيح البخاري | 472 | عبد الله بن عمر | مثنى مثنى إذا خشي الصبح صلى واحدة فأوترت له ما صلى اجعلوا آخر صلاتكم وترا |
● صحيح البخاري | 473 | عبد الله بن عمر | مثنى مثنى إذا خشيت الصبح فأوتر بواحدة توتر لك ما قد صليت |
● صحيح البخاري | 990 | عبد الله بن عمر | صلاة الليل مثنى مثنى إذا خشي أحدكم الصبح صلى ركعة واحدة توتر له ما قد صلى |
● صحيح البخاري | 995 | عبد الله بن عمر | يصلي من الليل مثنى مثنى يوتر بركعة |
● صحيح البخاري | 1137 | عبد الله بن عمر | كيف صلاة الليل قال مثنى مثنى إذا خفت الصبح فأوتر بواحدة |
● صحيح مسلم | 1760 | عبد الله بن عمر | من صلى فليصل مثنى مثنى إن أحس أن يصبح سجد سجدة فأوترت له ما صلى |
● صحيح مسلم | 1763 | عبد الله بن عمر | صلاة الليل مثنى مثنى إذا رأيت أن الصبح يدركك فأوتر بواحدة |
● صحيح مسلم | 1749 | عبد الله بن عمر | مثنى مثنى إذا خشيت الصبح فأوتر بركعة |
● صحيح مسلم | 1748 | عبد الله بن عمر | صلاة الليل مثنى مثنى إذا خشي أحدكم الصبح صلى ركعة واحدة توتر له ما قد صلى |
● صحيح مسلم | 1750 | عبد الله بن عمر | صلاة الليل مثنى مثنى إذا خفت الصبح فأوتر بواحدة |
● صحيح مسلم | 1751 | عبد الله بن عمر | مثنى مثنى إذا خشيت الصبح فصل ركعة واجعل آخر صلاتك وترا |
● صحيح مسلم | 1761 | عبد الله بن عمر | يصلي من الليل مثنى مثنى يوتر بركعة يصلي ركعتين قبل الغداة كأن الأذان بأذنيه |
● جامع الترمذي | 461 | عبد الله بن عمر | يصلي من الليل مثنى مثنى يوتر بركعة يصلي الركعتين والأذان في أذنه |
● جامع الترمذي | 597 | عبد الله بن عمر | صلاة الليل والنهار مثنى مثنى |
● جامع الترمذي | 437 | عبد الله بن عمر | صلاة الليل مثنى مثنى إذا خفت الصبح فأوتر بواحدة اجعل آخر صلاتك وترا |
● سنن أبي داود | 1326 | عبد الله بن عمر | صلاة الليل مثنى مثنى إذا خشي أحدكم الصبح صلى ركعة واحدة توتر له ما قد صلى |
● سنن أبي داود | 1295 | عبد الله بن عمر | صلاة الليل والنهار مثنى مثنى |
● سنن أبي داود | 1421 | عبد الله بن عمر | مثنى مثنى والوتر ركعة من آخر الليل |
● سنن النسائى الصغرى | 1668 | عبد الله بن عمر | مثنى مثنى إذا خشيت الصبح فواحدة |
● سنن النسائى الصغرى | 1669 | عبد الله بن عمر | صلاة الليل مثنى مثنى إذا خفت الصبح فأوتر بواحدة |
● سنن النسائى الصغرى | 1670 | عبد الله بن عمر | مثنى مثنى إذا خفت الصبح فأوتر بركعة |
● سنن النسائى الصغرى | 1671 | عبد الله بن عمر | مثنى مثنى إن خشي أحدكم الصبح فليوتر بواحدة |
● سنن النسائى الصغرى | 1672 | عبد الله بن عمر | صلاة الليل مثنى مثنى إذا خفت الصبح فأوتر بواحدة |
● سنن النسائى الصغرى | 1673 | عبد الله بن عمر | صلاة الليل مثنى مثنى إذا خفت الصبح فأوتر بواحدة |
● سنن النسائى الصغرى | 1674 | عبد الله بن عمر | صلاة الليل مثنى مثنى إذا خشيت الصبح فأوتر بواحدة |
● سنن النسائى الصغرى | 1675 | عبد الله بن عمر | صلاة الليل مثنى مثنى إذا خفت الصبح فأوتر بواحدة |
● سنن النسائى الصغرى | 1692 | عبد الله بن عمر | مثنى مثنى الوتر ركعة من آخر الليل |
● سنن النسائى الصغرى | 1693 | عبد الله بن عمر | صلاة الليل مثنى مثنى إذا أردت أن تنصرف فاركع بواحدة توتر لك ما قد صليت |
● سنن النسائى الصغرى | 1696 | عبد الله بن عمر | صلاة الليل ركعتين ركعتين إذا خفتم الصبح فأوتروا بواحدة |
● سنن النسائى الصغرى | 1695 | عبد الله بن عمر | صلاة الليل مثنى مثنى إذا خشي أحدكم الصبح صلى ركعة واحدة توتر له ما قد صلى |
● سنن النسائى الصغرى | 1694 | عبد الله بن عمر | صلاة الليل مثنى مثنى الوتر ركعة واحدة |
● سنن النسائى الصغرى | 1667 | عبد الله بن عمر | صلاة الليل والنهار مثنى مثنى |
● سنن ابن ماجه | 1175 | عبد الله بن عمر | صلاة الليل مثنى مثنى الوتر ركعة قبل الصبح |
● سنن ابن ماجه | 1174 | عبد الله بن عمر | يصلي من الليل مثنى مثنى يوتر بركعة |
● سنن ابن ماجه | 1320 | عبد الله بن عمر | يصلي مثنى مثنى إذا خاف الصبح أوتر بركعه |
● سنن ابن ماجه | 1322 | عبد الله بن عمر | صلاة الليل والنهار مثنى مثنى |
● سنن ابن ماجه | 1318 | عبد الله بن عمر | يصلي من الليل مثنى مثنى |
● سنن ابن ماجه | 1319 | عبد الله بن عمر | صلاة الليل مثنى مثنى |
● موطا امام مالك رواية ابن القاسم | 163 | عبد الله بن عمر | صلاة الليل مثنى مثنى، فإذا خشي احدكم الصبح صلى ركعة واحدة توتر له ما قد صلى |
● بلوغ المرام | 291 | عبد الله بن عمر | صلاة الليل مثنى فإذا خشي أحدكم الصبح صلى ركعة واحدة توتر ما قد صلى |
● المعجم الصغير للطبراني | 175 | عبد الله بن عمر | صلاة الليل مثنى مثنى ، فإذا خشيت الصبح فأوتر بواحدة |
● المعجم الصغير للطبراني | 182 | عبد الله بن عمر | صلاة الليل والنهار مثنى مثنى |
● المعجم الصغير للطبراني | 213 | عبد الله بن عمر | عن صلاة الليل ، فقال : مثنى مثنى ، فإذا خشي أحدكم الصبح فليوتر بواحدة |
● المعجم الصغير للطبراني | 221 | عبد الله بن عمر | صلاة الليل مثنى مثنى ، فإذا خشيت الصبح فأوتر بواحدة |
● مسندالحميدي | 641 | عبد الله بن عمر | صلاة الليل مثنى مثنى، فإذا خشيت الصبح فأوتر بواحدة |
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1174
´ایک رکعت وتر پڑھنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات میں دو دو رکعت پڑھتے تھے، اور ایک رکعت وتر پڑھتے تھے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1174]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
تہجد کی نمازدو دو رکعت کرکے ادا کی جاتی ہے۔
(2)
تہجد کے بعد ایک وتر پڑھ لینا کافی ہے۔
لیکن ایک سلام سے تین یا پانچ رکعت بھی پڑھی جا سکتی ہیں۔
(3)
ایک وترپڑھنے کی بابت رسول للہ ﷺ نے فرمایا۔
مَنْ اَحَبَّ اَن يُّوْتَرَ بِوَاحِدَةٍ فَلْيَفْعَلْ (سنن ابی داؤد، الوتر، باب کم الوتر، حدیث: 1422)
”جوکوئی ایک رکعت وتر پڑھنا چاہے۔
تو ایک رکعت (وتر)
پڑھے“ اس سے بلا نفل بھی ایک رکعت وتر پڑھنے کا جواز ملتا ہے۔
اگرچہ آپﷺکے عمل سے یہی بات ثابت ہوتی ہے۔
کہ نوافل کی ادایئگی کے بعد ہی آپﷺنے ایک رکعت وتر پر اکتفا کیا ہے۔
آپﷺ کے اس عمل کو قوی حدیث کے مخالف نہیں سمجھنا چایے۔
کیونکہ جیسے آپﷺ کا عمل امت کےلئے قابل اتباع ہے۔
ویسے آپ ﷺ کا قول اور تقریر بھی قابل عمل ہیں۔
صرف ایک رکعت وتر کی موافقت حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عمل سے بھی ہوتی ہے۔
ان کے بارے میں مروی ہے۔
کہ وہ نمازعشاء مسجد نبوی میں ادا کرنے کے بعد صرف ایک رکعت وتر ہی پڑھا کرتے تھے۔
۔
دیکھئے: (الموسوعة الحدیثیة مسند أحمد: 64/3 ومصنف عبد الرزاق، 22، 21/3 وابن ابی شیبة: 292/2)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1174
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 437
´رات کی (نفل) نماز دو دو رکعت ہے۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رات کی نفلی نماز دو دو رکعت ہے، جب تمہیں نماز فجر کا وقت ہو جانے کا ڈر ہو تو ایک رکعت پڑھ کر اسے وتر بنا لو، اور اپنی آخری نماز وتر رکھو۔“ [سنن ترمذي/أبواب السهو/حدیث: 437]
اردو حاشہ:
1؎:
رات کی نماز کا دو رکعت ہونا اس کے منافی نہیں کہ دن کی نفل نماز بھی دو دو رکعت ہو،
جبکہ ایک حدیث میں ”رات اور دن کی نماز دودو رکعت“ بھی آیا ہے،
در اصل سوال کے جواب میں کہ ”رات کی نماز کتنی کتنی پڑھی جائے“ ”آپ ﷺ نے فرمایا کہ رات کی نماز دو دو رکعت ہے“ نیز یہ بھی مروی ہے کہ آپ خود رات میں کبھی پانچ رکعتیں ایک سلام سے پڑھتے تھے،
اصل بات یہ ہے کہ نفل نماز عام طورسے دو دو رکعت پڑھنی افضل ہے خاص طور پر رات کی۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 437
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1295
´دن کی نماز کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رات اور دن کی نماز دو دو رکعت ہے۔“ [سنن ابي داود/كتاب التطوع /حدیث: 1295]
1295۔ اردو حاشیہ:
مستحب اور افضل یہ ہے کہ نوافل دن کے ہوں یا رات کے دو رکعت کر کے پڑھے جائیں، ایک سلام سے چار رکعت بھی جائز ہیں جیسے کہ سنن ابي داود گزشتہ حدیث [1270] میں گزرا ہے۔ امام نسائی رحمہ اللہ نے اس حدیث میں ”دن“ کے ذکر کو وہم قرار دیا ہے۔ جب کہ دوسرے علماء نے اسے ثقہ راوی کی زیادت قرار دیا ہے جو کہ مقبول ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: [التعليقات السلفية: 1/198]
اس لیے سنن و نوافل، چاہے دن کے ہوں یا رات کے، دو دو کر کے پڑھناراجح ہے، گو بیک سلام، چار رکعات بھی جائز ہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1295
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:472
472. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ ایک دفعہ منبر پر تشریف فر تھے کہ ایک شخص نے آپ سے دریافت کیا: رات کی نماز کے متعلق آپ کا کیا حکم ہے؟ آپ نے فرمایا: "دو دو رکعت پڑھو، پھر جب (کسی کو) صبح ہو جانے کا اندیشہ ہو تو ایک رکعت اور پڑھ لے، وہ سابقہ ساری نماز کو وتر کر دے گی۔" حضرت ابن عمر ؓ فرمایا کرتے تھے: رات کی نماز کے آخر میں وتر پڑھا کرو، نبی ﷺ نے اس کا حکم فرمایا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:472]
حدیث حاشیہ:
1۔
علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اللہ کے ذکر اور حصول علم کے لیے مسجد میں حلقہ بنا کر بیٹھنا جائز ہے۔
ان تینوں احادیث میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر مسجد ہو کر آپ کی مجلس سے استفادہ کرنا مذکورہے۔
اسی طرح کسی عالم سے استفادہ، چونکہ اس کے گرد حلقہ بنا کر بیٹھنے ہی سے ہوا کرتا ہے، لہذا امام بخاری ؒ کا عنوان ثابت ہو گیا۔
چونکہ اس قسم کے استفادہ چونکہ کے گرد حلقہ بنا کر بیٹھنے ہی سے ہوا کرتا ہے لہٰذا امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا عنوان ثابت ہو گیا۔
(شرح ابن بطال: 120/2)
2۔
بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے مسجد میں حلقہ بنانے پر اظہار ناگواری فرمایا تھا۔
حضرت جابر بن سمرہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا:
رسول اللہ ﷺ مسجد میں تشریف لائے تو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اس وقت حلقے بنا کر بیٹھے ہوئے تھے۔
آپ نے فرمایا ”کیا بات ہے میں تمھیں الگ الگ ٹکڑوں میں دیکھ رہا ہوں؟“ اس روایت کو امام مسلم نے اپنی صحیح میں بیان کیا ہے لیکن امام بخاری ؒ کی پیش کردہ مذکورہ روایات سے مسجد میں حلقہ بنا کر بیٹھنے کا جواز ثابت ہے۔
اور جن روایات سے اظہار ناگواری معلوم ہوتا ہے وہ ایسے حلقے ہیں جو بے ضرورت اور بلا فائدہ ہوں بلکہ رسول اللہ ﷺ نے ایسے حلقوں کو انتشار پسندی کی علامت قراردیا ہے۔
ایک حلقہ بنانے سے دلوں کا اتفاق اور ان کا متحدہ ہونا ثابت ہوتا ہے، لیکن حلقہ بنا کر بیٹھنے میں اگر کوئی مصلحت ہو جیسے تعلیم کے لیے دائرے کی صورت میں بیٹھنا تو اس کی اجازت ہے۔
(فتح الباري: 728/1)
3۔
پہلی دونوں احادیث سے مسجد میں بیٹھنے کا جواز ثابت ہے جن میں آپ کے خطبہ دینے کا ذکر ہے اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا بیٹھ کر سننا ثابت ہے اور تیسری روایت میں عنوان کے دوسرے جز یعنی حلقہ بنا کر بیٹھنے کاذکر ہے۔
پہلی اور دوسری روایت سے بھی امام بخاری ؒ کا مدعا بایں طور ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ خطبہ دے رہے تھے اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین آپ کے ارشادات سننے کے لیے آپ کے چاروں طرف سامنے کی سمت میں دائرہ بنا کر بیٹھے ہوئے تھے، کیونکہ وہ ہر طرف سے آپ کی طرف اپنا رخ کیے ہوئے بیٹھے تھے۔
گویا بیٹھنے کا ثبوت تو صراحت کے ساتھ ہے اور حلقہ بنا کر بیٹھنے کا ثبوت دلالت سے نکلتا ہے، تیسری روایت میں تو حلقہ بنا کر بیٹھنے کی صراحت ہے۔
چونکہ آپ کے پاس تین شخص آئے ایک واپس چلا گیا اور بقیہ دو آپ کی مجلس میں حاضر ہوئے جن میں سے ایک نے دیکھا کہ آپ کے پاس حلقے میں گنجائش ہے تو وہ حلقے میں آکر بیٹھ گیا۔
دوسرے کو حیا دامن گیر ہوئی تو وہ مجلس کے آخر میں بیٹھ گیا اس سے یہ ثابت ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین دائرہ اور حلقہ بنا کر بیٹھتے تھے نیز تعلیم وغیرہ کے لیے مسجد میں حلقہ بنا کر بیٹھنا بھی ثابت ہوا۔
وھوالمقصود۔
4۔
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نماز وتر ایک رکعت بھی پڑھی جا سکتی ہے۔
جیسا کہ حدیث میں ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”وتر ہر مسلمان پر حق ہے لہٰذا جو شخص پانچ رکعات پڑھنا چاہے تو پانچ رکعات وتر پڑھے جو تین پڑھنا چاہے تو وہ تین پڑھے اور جو ایک رکعت پڑھنا چاہے وہ ایک پڑھ لے۔
“ (سنن أبي داود، الوتر، حدیث: 1422)
حضرت ابن عباس ؓ سے کہا گیا کہ امیر المومنین حضرت معاویہ ؓ نے ایک ہی وتر پڑھا ہے۔
حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا:
وہ صحابی ہیں، ایک روایت میں ہے وہ فقیہ ہیں، یعنی انھوں نے درست کیا ہے۔
(صحیح البخاري، فضائل أصحاب النبي صلی اللہ علیه وسلم حدیث: 3764۔
3765)
نماز وتر کے متعلق تفصیلی بحث کتاب الوتر حدیث 990میں آئے گی۔
وہاں ہم ان کی تعداد اور پڑھنے کے متعلق طریق کار کو بیان کریں گے۔
بإذن اللہ تعالیٰ۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 472