حدثنا الحسن بن محمد، حدثنا حجاج، عن ابن جريج، قال: اخبرني ابن ابي مليكة، ان عبد الله بن الزبير اخبرهم، انه قدم ركب من بني تميم على النبي صلى الله عليه وسلم، فقال ابو بكر: امر القعقاع بن معبد، وقال عمر: بل امر الاقرع بن حابس، فقال ابو بكر: ما اردت إلى او إلا خلافي، فقال عمر: ما اردت خلافك، فتماريا حتى ارتفعت اصواتهما، فنزل في ذلك يايها الذين آمنوا لا تقدموا بين يدي الله ورسوله سورة الحجرات آية 1، حتى انقضت الآية.حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ أَخْبَرَهُمْ، أَنَّهُ قَدِمَ رَكْبٌ مِنْ بَنِي تَمِيمٍ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَمِّرْ الْقَعْقَاعَ بْنَ مَعْبَدٍ، وَقَالَ عُمَرُ: بَلْ أَمِّرْ الْأَقْرَعَ بْنَ حَابِسٍ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: مَا أَرَدْتَ إِلَى أَوْ إِلَّا خِلَافِي، فَقَالَ عُمَرُ: مَا أَرَدْتُ خِلَافَكَ، فَتَمَارَيَا حَتَّى ارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُهُمَا، فَنَزَلَ فِي ذَلِكَ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ سورة الحجرات آية 1، حَتَّى انْقَضَتِ الْآيَةُ.
ہم سے حسن بن محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے حجاج نے بیان کیا، ان سے ابن جریج نے بیان کیا، انہیں ابن ابی ملیکہ نے خبر دی اور انہیں عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ قبیلہ بنی تمیم کے سواروں کا وفد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ان کا امیر آپ قعقاع بن معبد کو بنا دیں اور عمر رضی اللہ عنہ نے کہا بلکہ اقرع بن حابس کو امیر بنائیں۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا کہ مقصد تو صرف میری مخالفت ہی کرنا ہے۔ عمر نے کہا کہ میں نے آپ کے خلاف کرنے کی غرض سے یہ نہیں کہا ہے۔ اس پر دونوں میں بحث چلی گئی اور آواز بھی بلند ہو گئی۔ اسی کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی «يا أيها الذين آمنوا لا تقدموا بين يدى الله ورسوله» کہ ”اے ایمان والو! تم اللہ اور اس کے رسول سے پہلے کسی کام میں جلدی مت کیا کرو۔“ آخر آیت تک۔
Narrated `Abdullah bin Az-Zubair: A group of Bani Tamim came to the Prophet (and requested him to appoint a governor for them). Abu Bakr said, "Appoint Al-Qaqa bin Mabad." `Umar said, "Appoint Al-Aqra' bin Habeas." On that Abu Bakr said (to `Umar). "You did not want but to oppose me!" `Umar replied "I did not intend to oppose you!" So both of them argued till their voices grew loud. So the following Verse was revealed: 'O you who believe! Be not for ward......' (49.1)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 370
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4847
4847. حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ سے روایت ہے کہ قبیلہ بنو تمیم کا ایک قافلہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضرت ابوبکر ؓ نے کہا: آپ، قیقاع بن معبد کو ان کا امید مقرر کر دیں، جبکہ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے کہا بلکہ آپ اقرع بن حابس کو ان کا سردار بنا دیں۔ اس پر حضرت ابوبکر ؓ نے کہا: اے عمر! تم نے تو میری مخالفت کا ارادہ کر رکھا ہے۔ حضرت عمر ؓ نے کہا: میں نے آپ کی مخالفت کا ارادہ نہیں کیا۔ بہرحال دونوں حضرات جھگڑ پڑے حتی کہ دونوں کی آوازیں بلند ہو گئیں تو یہ آیت نازل ہوئی: ﴿يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ لَا تُقَدِّمُوا۟ بَيْنَ يَدَىِ ٱللَّـهِ وَرَسُولِهِۦ۔۔۔﴾[صحيح بخاري، حديث نمبر:4847]
حدیث حاشیہ: مذکورہ ادب اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس کے لیے سکھایا گیا ہے اور اس کے مخاطب صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین ہیں یا وہ لوگ جو آپ کے زمانے میں موجود تھے۔ اور یہ ادب اس لیے سکھایا گیا کہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کو ایک عام اور معمولی آدمی خیال نہ کریں بلکہ وہ یہ سمجھیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ وہ اللہ کے رسول اور اس کے مستند نمائندے ہیں جن کی شان دنیا کے افسروں اور بادشاہوں سے بہت ارفع اور اعلیٰ ہے، تاہم اس حکم کا اطلاق ایسے مواقع پر بھی ہوتا ہے جہاں آپ کے ارشادات، معمولات اور آپ کا اخلاق و کردار بیان ہو رہا ہو، یا آپ کی احادیث پڑھی، پڑھائی جا رہی ہوں۔ واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 4847