الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4144
4144. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے ﴿إِذْ تَلِقُونَهُ بِأَلْسِنَتِكُمْ﴾ پڑھا، یعنی جس وقت تم اپنی زبانوں سے جھوٹ بولتے تھے، اور فرمایا: وَلَقَ کے معنی جھوٹ کے ہیں۔ ابن ابی ملیکہ نے کہا: حضرت عائشہ ؓ اس قراءت کو دوسروں کی نسبت زیادہ جاننے والی تھیں کیونکہ یہ آیت انہی کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4144]
حدیث حاشیہ:
1۔
عام قراءت (تَلَقَّوْنَهُ)
ہے جو (تلقي)
سے ماخوذ ہے جس کے معنی لینا اور قبول کرنا ہیں، جبکہ حضرت عائشہ ؓ کے نزدیک (تَلِقُونَه)
ہے جو ولق سے مشتق ہے۔
اس کے معنی جھوٹ بولنے میں جلدی کرنا ہیں لیکن پہلی قراءت متواتر ہے اور سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ کے متعلق اس آیت کا نازل ہونا یہ معنی نہیں رکھتا کہ ان کی قرآءت متواتر اور صحیح ہے۔
2۔
قراءت متواتر ہ میں ایک تاکو خذف کردیا گیا ہے۔
اصل میں (تتلقونه)
فعل مضارع کا صیغہ ہے۔
واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 4144