29. بَابُ غَزْوَةُ الرَّجِيعِ وَرِعْلٍ وَذَكْوَانَ وَبِئْرِ مَعُونَةَ:
29. باب: غزوہ رجیع کا بیان اور رعل و ذکوان اور بئرمعونہ کے غزوہ کا بیان۔
(29) Chapter. The Ghazwa (i.e., battle) of Ar-Raji, Ril, Dhakwan and Bir Mauna.
Narrated `Aisha: Abu Bakr asked the Prophet to allow him to go out (of Mecca) when he was greatly annoyed (by the infidels). But the Prophet said to him, ''Wait." Abu Bakr said, O Allah's Apostle! Do you hope that you will be allowed (to migrate)?" Allah's Apostle replied, "I hope so." So Abu Bakr waited for him till one day Allah's Apostle came at noon time and addressed him saying "Let whoever is present with you, now leave you." Abu Bakr said, "None is present but my two daughters." The Prophet said, "Have you noticed that I have been allowed to go out (to migrate)?" Abu Bakr said, "O Allah's Apostle, I would like to accompany you." The Prophet said, "You will accompany me." Abu Bakr said, "O Allah's Apostle! I have got two she-camels which I had prepared and kept ready for (our) going out." So he gave one of the two (she-camels) to the Prophet and it was Al-Jad`a . They both rode and proceeded till they reached the Cave at the mountain of Thaur where they hid themselves. Amir bin Fuhaira was the slave of `Abdullah bin at-Tufail bin Sakhbara `Aisha's brother from her mother's side. Abu Bakr had a milch she-camel. Amir used to go with it (i.e. the milch she-camel) in the afternoon and come back to them before noon by setting out towards them in the early morning when it was still dark and then he would take it to the pasture so that none of the shepherds would be aware of his job. When the Prophet (and Abu Bakr) went away (from the Cave), he (i.e. 'Amir) too went along with them and they both used to make him ride at the back of their camels in turns till they reached Medina. 'Amir bin Fuhaira was martyred on the day of Bir Ma'una. Narrated `Urwa: When those (Muslims) at Bir Ma'una were martyred and `Amr bin Umaiya Ad- Damri was taken prisoner, 'Amir bin at-Tufail, pointing at a killed person, asked `Amr, "Who is this?" `Amr bin Umaiya said to him, "He is 'Amir bin Fuhaira." 'Amir bin at-Tufail said, "I saw him lifted to the sky after he was killed till I saw the sky between him and the earth, and then he was brought down upon the earth. Then the news of the killed Muslims reached the Prophet and he announced the news of their death saying, "Your companions (of Bir Ma'una) have been killed, and they have asked their Lord saying, 'O our Lord! Inform our brothers about us as we are pleased with You and You are pleased with us." So Allah informed them (i.e. the Prophet and his companions) about them (i.e. martyrs of Bir Mauna). On that day, `Urwa bin Asma bin As-Salt who was one of them, was killed, and `Urwa (bin Az- Zubair) was named after `Urwa bin Asma and Mundhir (bin AzZubair) was named after Mundhir bin `Amr (who had also been martyred on that day).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 419
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4093
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں ہجرت نبوی کا بیان ہے۔
شروع میں آپ کا غار ثور میں قیام کرنا مصلحت الہی کے تحت تھا۔
اللہ تعالی نے آپ کی وہاں بھی کامل حفاظت فرمائی اور وہاں رزق بھی پہنچایا۔
اس موقع پر حضرت عامر بن فہیرہ ؓ نے ہر دو بزرگوں کی اہم خدمات انجام دیں کہ غار میں اونٹنی کے تازہ تازہ دودھ سے ہر دو بزرگوں کو سیراب رکھا۔
حقیقی جانثاری اسی کا نام ہے۔
یہی عامر بن فہیرہ ؓ ہیں جو ستر قاریوں کے قافلہ میں شہید کئے گئے۔
اللہ تعالی نے ان کی لاش کا یہ اکرام کیا کہ وہ آسمان کی طرف اٹھائی گئی پھر زمین پر رکھ دی گئی۔
شہدائے کرام کے یہ مراتب ہیں جو حقیقی شہداء کو ملتے ہیں۔
سچ ہے ﴿وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَكِنْ لَا تَشْعُرُونَ﴾ (البقرة: 154)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4093
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4093
حدیث حاشیہ:
1۔
عبد اللہ بن طفیل ؓ حضرت عائشہ ؓ کا مادری بھائی اس بنا پر تھا کہ حضرت ام رومان ؓ پہلے ان کے باپ کے نکاح میں تھیں۔
باپ بیٹا دونوں مکہ مکرمہ میں آئے اور ابو بکر ؓ کے حلیف بن گئے۔
جب طفیل فوت ہوا تو حضرت ابو بکرؓ نے اُم رومان ؓ سے شادی کر لی اور اس سے حضرت عبدالرحمٰن ؓ اور حضرت عائشہ ؓ پیدا ہوئے۔
اس بنا پر عبد اللہ بن طفیل ؓ ان کے ماں کی طرف سے بھائی ہیں۔
2۔
حضرت عامر بن فہیرہ ؓ شہید ہوئے تھے اس لیے ہجرت کا ذکر ان کے تعارف کے طور پر ہوا ہے کہ انھوں نے سفر ہجرت کے دوران میں دوبزرگوں کی تمام خدمات سرانجام دیں۔
اللہ تعالیٰ نے ان کی لاش کا یہ اکرام فرمایا کہ وہ آسمان کی طرف اٹھالی گئی۔
پھر زمین پر رکھ دی گئی شہدائے کرام کے یہی مراتب ہیں جو صرف انھی کو نصیب ہوتے ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”جو لوگ اللہ کی راہ میں شہید ہو جائیں انھیں مردہ مت کہو بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تم ان کی زندگی کا شعور نہیں رکھتے۔
“ (البقرہ: 154/2)
حضرت عامر بن فہیرہ ؓ کی لاش کو آسمان کی طرف اٹھانے اور زمین پر رکھنے کا ایک فائدہ تو یہ تھا کہ ان کی تعظیم و توقیر مقصود تھی۔
دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ اس سے کافر بہت مرعوب ہوئے۔
3۔
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نیک فال کے طور پر اپنی اولاد کے نام نیک لوگوں کے نام کے مطابق رکھنے میں کوئی حرج نہیں تاکہ بڑے ہو کر وہ بھی ان کے نقش قدم پر چلیں، جیسا کہ حضرت زبیر بن عوام ؓ نے ایسا کیا تھا۔
واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4093