Narrated Al-Bara: We faced the pagans on that day (of the battle of Uhud) and the Prophet placed a batch of archers (at a special place) and appointed `Abdullah (bin Jubair) as their commander and said, "Do not leave this place; and if you should see us conquering the enemy, do not leave this place, and if you should see them conquering us, do not (come to) help us," So, when we faced the enemy, they took to their heel till I saw their women running towards the mountain, lifting up their clothes from their legs, revealing their leg-bangles. The Muslims started saying, "The booty, the booty!" `Abdullah bin Jubair said, "The Prophet had taken a firm promise from me not to leave this place." But his companions refused (to stay). So when they refused (to stay there), (Allah) confused them so that they could not know where to go, and they suffered seventy casualties. Abu Sufyan ascended a high place and said, "Is Muhammad present amongst the people?" The Prophet said, "Do not answer him." Abu Sufyan said, "Is the son of Abu Quhafa present among the people?" The Prophet said, "Do not answer him." `Abd Sufyan said, "Is the son of Al-Khattab amongst the people?" He then added, "All these people have been killed, for, were they alive, they would have replied." On that, `Umar could not help saying, "You are a liar, O enemy of Allah! Allah has kept what will make you unhappy." Abu Safyan said, "Superior may be Hubal!" On that the Prophet said (to his companions), "Reply to him." They asked, "What may we say?" He said, "Say: Allah is More Elevated and More Majestic!" Abu Sufyan said, "We have (the idol) Al-`Uzza, whereas you have no `Uzza!" The Prophet said (to his companions), "Reply to him." They said, "What may we say?" The Prophet said, "Say: Allah is our Helper and you have no helper." Abu Sufyan said, "(This) day compensates for our loss at Badr and (in) the battle (the victory) is always undecided and shared in turns by the belligerents. You will see some of your dead men mutilated, but neither did I urge this action, nor am I sorry for it."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 375
● صحيح البخاري | 4561 | براء بن عازب | جعل النبي على الرجالة يوم أحد عبد الله بن جبير وأقبلوا منهزمين فذاك إذ يدعوهم الرسول في أخراهم ولم يبق مع النبي غير اثني عشر رجلا |
● صحيح البخاري | 4043 | براء بن عازب | اعل هبل فقال النبي أجيبوه قالوا ما نقول قال قولوا الله أعلى وأجل قال أبو سفيان لنا العزى ولا عزى لكم فقال النبي أجيبوه قالوا ما نقول قال قولوا الله مولانا ولا مولى لكم قال أبو سفيان يوم بيوم بدر والحرب سجال |
● صحيح البخاري | 4067 | براء بن عازب | جعل النبي على الرجالة يوم أحد عبد الله بن جبير وأقبلوا منهزمين فذاك إذ يدعوهم الرسول في أخراهم |
● صحيح البخاري | 3039 | براء بن عازب | إن رأيتمونا تخطفنا الطير فلا تبرحوا مكانكم هذا حتى أرسل إليكم وإن رأيتمونا هزمنا القوم وأوطأناهم فلا تبرحوا حتى أرسل إليكم فهزموهم قال فأنا والله رأيت النساء يشتددن قد بدت خلاخلهن وأسوقهن رافعات ثيابهن فقال أصحاب عبد الله بن جبير الغنيمة أي قوم الغنيمة ظه |
● صحيح البخاري | 3986 | براء بن عازب | جعل النبي على الرماة يوم أحد عبد الله بن جبير فأصابوا منا سبعين وكان النبي وأصحابه أصابوا من المشركين يوم بدر أربعين ومائة سبعين أسيرا وسبعين قتيلا قال أبو سفيان يوم بيوم بدر والحرب سجال |
● سنن أبي داود | 2662 | براء بن عازب | إن رأيتمونا تخطفنا الطير فلا تبرحوا من مكانكم هذا حتى أرسل إليكم وإن رأيتمونا هزمنا القوم وأوطأناهم فلا تبرحوا حتى أرسل إليكم قال فهزمهم الله قال فأنا والله رأيت النساء يشتددن على الجبل فقال أصحاب عبد الله بن جبير الغنيمة أي قوم الغنيمة ظهر أصحابكم فما تن |
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2662
´کمین (گھات) میں بیٹھنے والوں کا بیان۔`
براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ احد میں عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ کو تیر اندازوں کا امیر بنایا ان کی تعداد پچاس تھی اور فرمایا: ”اگر تم دیکھو کہ ہم کو پرندے اچک رہے ہیں پھر بھی اپنی اس جگہ سے نہ ہٹنا یہاں تک کہ میں تمہیں بلاؤں اور اگر تم دیکھو کہ ہم نے کافروں کو شکست دے دی ہے، انہیں روند ڈالا ہے، پھر بھی اس جگہ سے نہ ہٹنا، یہاں تک کہ میں تمہیں بلاؤں“، پھر اللہ تعالیٰ نے کافروں کو شکست دی اور اللہ کی قسم میں نے مشرکین کی عورتوں کو دیکھا کہ بھاگ کر پہاڑوں پر چڑھنے لگیں، عبداللہ بن جبیر کے ساتھی کہنے لگے: لوگ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2662]
فوائد ومسائل:
1۔
دشمن پر حملہ کرنے یا اپنے دفاع کےلئے مجاہدین کوکمین گاہ میں چھپنا یا چھپانا جائز اور نظم جہاد کا ایک اہم حصہ ہوتاہے۔
2۔
رسول اللہ ﷺ کے حکم کی پرواہ نہ کرنے اور مال کی حرص کا نتیجہ شکست کی صورت میں سامنے آیا۔
جو اگرچہ عارضی تھی۔
اس لئے واجب ہے کہ انسان فرامین رسول ﷺ کو ہرحال میں اولیت اور اولیت دے تاکہ دنیا اور آخرت کی ہزیمت سے محفوظ رہے۔
3۔
شرعی امیر کی اطاعت بھی واجب ہے۔
اور سپہ سالار کی منصوبہ بندی کے احکام بلا چون وچرا ماننے چاہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2662
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4043
4043. حضرت براء ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ جنگ اُحد کے موقع پر جب ہمارا مشرکین سے آمنا سامنا ہوا تو نبی ﷺ نے تیر ندازوں کا ایک دستہ عبداللہ بن جبیر ؓ کی سرکردگی میں تعینات فرمایا اور انہیں یہ حکم دیا: ”تم نے اپنی جگہ پر برقرار رہنا ہے۔ اگر تم دیکھو کہ ہم نے مشرکین پر غلبہ حاصل کر لیا ہے تو بھی اس جگہ کو نہیں چھوڑنا اور اگر تم دیکھو کہ وہ ہم پر غالب آ گئے ہیں تو بھی ہماری مدد کے لیے نہیں آنا۔“ جب ہم نے ان سے مقابلہ کیا تو وہ بھاگ نکلے۔ میں نے دیکھا کہ ان کی عورتیں پہاڑیوں پر بڑی تیزی کے ساتھ دوڑتی جا رہی تھیں۔ انہوں نے اپنی پنڈلیوں سے کپڑے اٹھائے ہوئے تھے اور ان کے پازیب دکھائی دے رہے تھے۔ یہ منظر دیکھ کر درے پر تعینات تیر اندازوں نے کہنا شروع کر دیا کہ دوڑو اور مال غنیمت حاصل کرو۔ حضرت عبداللہ بن جبیر ؓ نے ان سے کہا: مجھے نبی ﷺ نے تاکید کی تھی کہ تم نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4043]
حدیث حاشیہ:
بعد میں حضرت ابوسفیان بن حارث بن عبدالمطلب مسلمان ہوگئے تھے اوراپنی اس زندگی پرنادم تھے مگر اسلام پہلے کےگناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 4043
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4043
4043. حضرت براء ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ جنگ اُحد کے موقع پر جب ہمارا مشرکین سے آمنا سامنا ہوا تو نبی ﷺ نے تیر ندازوں کا ایک دستہ عبداللہ بن جبیر ؓ کی سرکردگی میں تعینات فرمایا اور انہیں یہ حکم دیا: ”تم نے اپنی جگہ پر برقرار رہنا ہے۔ اگر تم دیکھو کہ ہم نے مشرکین پر غلبہ حاصل کر لیا ہے تو بھی اس جگہ کو نہیں چھوڑنا اور اگر تم دیکھو کہ وہ ہم پر غالب آ گئے ہیں تو بھی ہماری مدد کے لیے نہیں آنا۔“ جب ہم نے ان سے مقابلہ کیا تو وہ بھاگ نکلے۔ میں نے دیکھا کہ ان کی عورتیں پہاڑیوں پر بڑی تیزی کے ساتھ دوڑتی جا رہی تھیں۔ انہوں نے اپنی پنڈلیوں سے کپڑے اٹھائے ہوئے تھے اور ان کے پازیب دکھائی دے رہے تھے۔ یہ منظر دیکھ کر درے پر تعینات تیر اندازوں نے کہنا شروع کر دیا کہ دوڑو اور مال غنیمت حاصل کرو۔ حضرت عبداللہ بن جبیر ؓ نے ان سے کہا: مجھے نبی ﷺ نے تاکید کی تھی کہ تم نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4043]
حدیث حاشیہ:
1۔
رسول اللہ ﷺ نے ابو سفیان کی باتوں کا جواب دینے سے منع فرمایا تاکہ اس کے دل کا راز معلوم ہو جائے کہ وہ کس مقصد کے لیے پوچھ رہا ہے، نیز خاموشی اختیار کرنے میں دشمن کو بظاہر خوشی ہوگی لیکن جب آپ ﷺ کا اور حضرت ابو بکر ؓ اور حضرت عمر ؓ کا زندہ ہونا معلوم ہوگا تو زیادہ رنج میں مبتلا ہوں گے۔
یہ بھی ایک قسم کا جہاد ہے۔
2۔
حضرت عمر ؓ نے قرینے سے معلوم کر لیا تھا رسول اللہ ﷺ کا مقصد یہ ہے کہ ابو سفیان جب تک بولتا رہے اس کا جواب نہ دیا جائے لیکن اس کے خاموش ہو جانے کے بعد ممانعت نہیں اس لیے حضرت عمر ؓ کا جواب دینا نافرمانی اور حکم عددلی نہیں۔
اگر ایسا ہوتا تو رسول اللہ ﷺ جواب دینے پر عتاب فرماتے لیکن ایسا نہیں ہوا۔
3۔
اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ کفر کی آنکھ میں رسول اللہ ﷺ کی ذات گرامی حضرت ابو بکر ؓ اور حضرت عمر ؓ تینوں بزرگ کاٹنے کی طرح کھٹکتے تھے۔
یہی وجہ ہے کہ ابو سفیان نے صرف ان تینوں حضرات کے متعلق سوال کیا۔
4۔
آج بھی کچھ لوگ حضرت ابو بکر ؓ اور حضرت عمر ؓ سے پرخاش رکھتے ہیں اور ان پر سب وشتم روا سمجھتے ہیں۔
جبکہ اسلام میں ان دونوں بزرگوں کا مقام بہت اونچا ہے اور اس مقام اور اہمیت کو روز اول کے کفر نے بھی محسوس کیا تھا۔
حافظ ابن حجر ؒ نے بھی ان حضرات کی قدر و منزلت کو خوب اجاگر کیا ہے۔
(فتح الباری: 440/7)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 4043