Narrated Al-Bara: Allah's Apostle sent `Abdullah bin 'Atik and `Abdullah bin `Utba with a group of men to Abu Rafi` (to kill him). They proceeded till they approached his castle, whereupon `Abdullah bin Atik said to them, "Wait (here), and in the meantime I will go and see." `Abdullah said later on, "I played a trick in order to enter the castle. By chance, they lost a donkey of theirs and came out carrying a flaming light to search for it. I was afraid that they would recognize me, so I covered my head and legs and pretended to answer the call to nature. The gatekeeper called, 'Whoever wants to come in, should come in before I close the gate.' So I went in and hid myself in a stall of a donkey near the gate of the castle. They took their supper with Abu Rafi` and had a chat till late at night. Then they went back to their homes. When the voices vanished and I no longer detected any movement, I came out. I had seen where the gate-keeper had kept the key of the castle in a hole in the wall. I took it and unlocked the gate of the castle, saying to myself, 'If these people should notice me, I will run away easily.' Then I locked all the doors of their houses from outside while they were inside, and ascended to Abu Rafi` by a staircase. I saw the house in complete darkness with its light off, and I could not know where the man was. So I called, 'O Abu Rafi`!' He replied, 'Who is it?' I proceeded towards the voice and hit him. He cried loudly but my blow was futile. Then I came to him, pretending to help him, saying with a different tone of my voice, ' What is wrong with you, O Abu Rafi`?' He said, 'Are you not surprised? Woe on your mother! A man has come to me and hit me with a sword!' So again I aimed at him and hit him, but the blow proved futile again, and on that Abu Rafi` cried loudly and his wife got up. I came again and changed my voice as if I were a helper, and found Abu Rafi` lying straight on his back, so I drove the sword into his belly and bent on it till I heard the sound of a bone break. Then I came out, filled with astonishment and went to the staircase to descend, but I fell down from it and got my leg dislocated. I bandaged it and went to my companions limping. I said (to them), 'Go and tell Allah's Apostle of this good news, but I will not leave (this place) till I hear the news of his (i.e. Abu Rafi`'s) death.' When dawn broke, an announcer of death got over the wall and announced, 'I convey to you the news of Abu Rafi`'s death.' I got up and proceeded without feeling any pain till I caught up with my companions before they reached the Prophet to whom I conveyed the good news."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 372
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4040
4040. حضرت براء بن عازب ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے چند انصار کو ابو رافع یہودی کے پاس بھیجا اور ان پر حضرت عبداللہ بن عتیک ؓ کو امیر مقرر فرمایا۔ یہ ابو رافع رسول اللہ ﷺ کو سخت اذیت دیا کرتا تھا اور آپ کے مخالفین کی اعانت کرتا تھا۔ زمین حجاز میں اس کا قلعہ تھا اور وہ اس میں رہائش پذیر تھا۔ جب یہ لوگ اس کے پاس پہنچے تو سورج غروب ہو چکا تھا اور شام کے وقت لوگ اپنے مویشی واپس لا رہے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عتیک ؓ نے اپنے ساتھیوں سے کہا: تم اپنی جگہ پر ٹھہرو، میں جاتا ہوں اور دربان سے مل کر اس سے نرم نرم باتیں کر کے قلعے کے اندر جانے کی کوئی تدبیر کرتا ہوں، چنانچہ وہ قلعے کی طرف روانہ ہوئے اور دروازے کے قریب پہنچ کر خود کو کپڑوں میں اس طرح چھپا لیا گویا وہ قضائے حاجت کے لیے بیٹھے ہوئے ہیں۔ اس وقت اہل قلعہ اندر جا چکے تھے۔ دربان نے اپنا آدمی سمجھ کر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4040]
حدیث حاشیہ:
ابورافع یہودی خیبر میں رہتا تھا۔
رئیس التجار اور تاجر الحجاز سے مشہور تھا۔
اسلام کا سخت ترین دشمن ہر وقت رسول کریم ﷺ کی ہجو کیا کرتا تھا۔
غزوئہ خندق کے موقع پر عرب کے مشہور قبائل کو مدینہ پر حملہ کرنے کے لیے اس نے ابھارا تھا۔
آخر چند خزرجی صحابیوں کی خواہش پر آنحضرت ﷺ نے عبد اللہ بن عتیک انصاری کی قیادت میں پانچ آدمیوں کو اس کے قتل پر مامور فرمایا تھا۔
ساتھ میں تاکید فرمائی کہ عورتوں اور بچوں کو ہرگز قتل نہ کرنا۔
چنانچہ وہ ہوا جو حدیث بالا میں تفصیل کے ساتھ موجود ہے۔
بعض دفعہ قیام امن کے لیے ایسے مفسدوں کا قتل کرنا دنیا کے ہر قانون میں ضروری ہوجاتا ہے۔
حافظ صاحب فرماتے ہیں:
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ كَانَ مِمَّا صَنَعَ اللَّهُ لِرَسُولِهِ أَنَّ الْأَوْسَ وَالْخَزْرَجَ كَانَا يَتَصَاوَلَانِ تَصَاوُلَ الْفَحْلَيْنِ لَا تَصْنَعُ الْأَوْسُ شَيْئًا إِلَّا قَالَتِ الْخَزْرَجُ وَاللَّهِ لَا تَذْهَبُونَ بِهَذِهِ فَضْلًا عَلَيْنَا وَكَذَلِكَ الْأَوْسُ فَلَمَّا أَصَابَتِ الْأَوْسُ كَعْبَ بْنَ الْأَشْرَفِ تَذَاكَرَتِ الْخَزْرَجُ مَنْ رَجُلٌ لَهُ مِنَ الْعَدَاوَةِ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَمَا كَانَ لِكَعْبٍ فَذكرُوا بن أَبِي الْحُقَيْقِ وَهُوَ بِخَيْبَرَ (فتح الباري)
یعنی اوس اور خزرج کا باہمی حال یہ تھا کہ وہ دونوں قبیلے آپس میں اس طرح رشک کرتے تھے جیسے دو سانڈ آپس میں رشک کرتے ہیں۔
جب قبیلہ اوس کے ہاتھوں کوئی اہم کام انجام پاتا تو خزرج والے کہتے کہ قسم اللہ کی اس کام کو کرکے تم فضیلت میں ہم سے آگے نہیں بڑھ سکتے۔
ہم اس سے بھی بڑا کوئی کام انجام دیں گے۔
اوس کا بھی یہی خیال رہتا تھا۔
جب قبیلہ اوس نے کعب بن اشرف کو ختم کیا تو خزرج نے سوچا کہ ہم کسی اس سے بڑے دشمن کا خاتمہ کریں گے جو رسول کریم ﷺ کی عداوت میں اس سے بڑھ کر ہو گا۔
چنانچہ انہوں نے ابن ابی الحقیق کا انتخاب کیا جو خیبر میں رہتا تھا اور رسول کریم ﷺ کی عداوت میں یہ کعب بن اشرف سے بھی آگے بڑھا ہوا تھا۔
چنانچہ اوس کے جوانوں نے اس ظالم کا خاتمہ کیا۔
جس کی تفصیل یہاں مذکور ہے۔
روایت میں ابورافع کی جو رو کے جاگنے کا ذکر آیا ہے۔
ابن اسحاق کی روایت میں ہے کہ وہ جاگ کر چلانے لگی۔
عبداللہ بن عتیک ؓ کہتے ہیں کہ میں نے اس پر تلوار اٹھائی لیکن فوراً مجھ کو فرمان نبوی یاد آگیا اور میں نے اسے نہیں مارا۔
آگے حضرت عبداللہ بن عتیک ؓ کی ہڈی سرک جانے کا ذکر ہے۔
اگلی روایت میں پنڈلی ٹوٹ جانے کا ذکر ہے۔
اور اس میں جوڑ کھل جانے کا دونوں باتوں میں اختلاف نہیں ہے کیونکہ احتمال ہے کہ پنڈلی کی ہڈی ٹوٹ گئی ہو اور جوڑ بھی کسی جگہ سے کھل گیا ہو۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 4040
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4040
4040. حضرت براء بن عازب ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے چند انصار کو ابو رافع یہودی کے پاس بھیجا اور ان پر حضرت عبداللہ بن عتیک ؓ کو امیر مقرر فرمایا۔ یہ ابو رافع رسول اللہ ﷺ کو سخت اذیت دیا کرتا تھا اور آپ کے مخالفین کی اعانت کرتا تھا۔ زمین حجاز میں اس کا قلعہ تھا اور وہ اس میں رہائش پذیر تھا۔ جب یہ لوگ اس کے پاس پہنچے تو سورج غروب ہو چکا تھا اور شام کے وقت لوگ اپنے مویشی واپس لا رہے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عتیک ؓ نے اپنے ساتھیوں سے کہا: تم اپنی جگہ پر ٹھہرو، میں جاتا ہوں اور دربان سے مل کر اس سے نرم نرم باتیں کر کے قلعے کے اندر جانے کی کوئی تدبیر کرتا ہوں، چنانچہ وہ قلعے کی طرف روانہ ہوئے اور دروازے کے قریب پہنچ کر خود کو کپڑوں میں اس طرح چھپا لیا گویا وہ قضائے حاجت کے لیے بیٹھے ہوئے ہیں۔ اس وقت اہل قلعہ اندر جا چکے تھے۔ دربان نے اپنا آدمی سمجھ کر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4040]
حدیث حاشیہ:
1۔
ابورافع یہودی کی اہل اسلام کے خلاف خباثتیں انتہاء کو پہنچ چکی تھیں۔
وہ ہروقت رسول اللہ ﷺکی ہجو کرتا تھا۔
ایسے حالات میں اسے قتل کرنا ضروری ہوگیا تھا۔
آخر کار رسول اللہ ﷺنے چند خزرجی صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی خواہش پر حضرت عبداللہ بن عتیک ؓ کی قیادت میں پانچ آدمیوں پر مشتمل ایک دستہ اس کے قتل پر مامور کیا۔
انھوں نے اس بدطینت کو صفحہ ہستی سے نیست ونابود کیا۔
پہلی حدیث میں حضرت عبداللہ بن عتیکؓ کی پنڈلی ٹوٹ جانے کا ذکرتھا جبکہ دوسری حدیث میں پاؤں کا جوڑ کھل جانے کا بیان ہے؟ ان دونوں میں کوئی تضاد نہیں کیونکہ پنڈلی بھی ٹوٹی تھی اور پاؤں کا جوڑ بھی کھلا تھا۔
ان دونوں احادیث میں مختلف طرق سے ابورافع یہودی کے قتل کا بیان ہے۔
2۔
واضح رہے کہ ابورافع خیبر کے جس قلعے میں رہتا تھا وہ سرزمین حجاز کے قریب تھا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ پہلے وہ حجاز میں رہ کر تکلیفیں دیا کرتا تھا، پھر جلاوطنی کے بعد خیبر چلا گیا اور قتل کے وقت وہ اسی قلعے میں تھا۔
یہ ممکن ہے کہ پہلے وہ حجاز میں رہ کرتکلیفیں دیا کرتا تھا، پھر جلاوطنی کے بعد خیبر چلا گیا اور قتل کے وقت وہ اسی قعلے میں تھا۔
یہ ممکن ہے کہ اس کا ایک مکان خیبر میں ہو اوردوسراحجاز میں۔
بہرحال قتل کے وقت وہ خیبر کے قلعے میں تھا۔
3۔
ابورافع کے دو بھائی بھی تھے:
ایک تو کنانہ جو حضرت صفیہ ؓ کا خاوند تھا اور دوسرا ربیع بن ابی الحقیق۔
ان دونوں کو فتح خیبر کے بعد قتل کردیا گیا تھا۔
(فتح الباري: 427/7)
حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ ان دونوں سرداروں کے قتل سے ثابت ہوتا ہے کہ مشرکین کے حالات کا تجسس کرناجائز ہے۔
اور جب ان کی ایذارسانی حد سے بڑھ جائے توان کی بے عزتی کرنا اور انھیں اچانک قتل کرناجائز ہے نیز کسی کافر کو اپنے کفر پراصرار ہوتو ایسے لوگوں کو قبل از قتل دعوت دینے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔
(فتح الباري: 431/7)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 4040