متبر سورة الاعراف آية 139 خسران وليتبروا سورة الإسراء آية 7 يدمروا ما علوا سورة الإسراء آية 7 ما غلبوا.مُتَبَّرٌ سورة الأعراف آية 139 خُسْرَانٌ وَلِيُتَبِّرُوا سورة الإسراء آية 7 يُدَمِّرُوا مَا عَلَوْا سورة الإسراء آية 7 مَا غَلَبُوا.
اور اسی سورت میں «متبر» کے معنی تباہی ‘ نقصان۔ سورۃ بنی اسرائیل میں «وليتبروا» کا معنی خراب کریں۔ «ما علوا» کا معنی جس جگہ حکومت پائیں ‘ غالب ہوں۔
حدثنا يحيى بن بكير، حدثنا الليث، عن يونس، عن ابن شهاب، عن ابي سلمة بن عبد الرحمن، ان جابر بن عبد الله رضي الله عنهما، قال: كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم نجني الكباث، وإن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" عليكم بالاسود منه فإنه اطيبه، قالوا: اكنت ترعى الغنم، قال: وهل من نبي إلا وقد رعاها".حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يُونُسَ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَجْنِي الْكَبَاثَ، وَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" عَلَيْكُمْ بِالْأَسْوَدِ مِنْهُ فَإِنَّهُ أَطْيَبُهُ، قَالُوا: أَكُنْتَ تَرْعَى الْغَنَمَ، قَالَ: وَهَلْ مِنْ نَبِيٍّ إِلَّا وَقَدْ رَعَاهَا".
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے لیث نے بیان کیا ‘ ان سے یونس نے ‘ ان سے ابن شہاب نے ‘ ان سے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے اور ان سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ(ایک مرتبہ) ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (سفر میں) پیلو کے پھل توڑنے لگے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو سیاہ ہوں انہیں توڑو ‘ کیونکہ وہ زیادہ لذیذ ہوتا ہے۔ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا: کیا آپ نے کبھی بکریاں چرائی ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس نے بکریاں نہ چرائی ہوں۔
Narrated Jabir bin `Abdullah: We were with Allah's Apostle picking the fruits of the 'Arak trees, and Allah's Apostle said, "Pick the black fruit, for it is the best." The companions asked, "Were you a shepherd?" He replied, "There was no prophet who was not a shepherd."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 55, Number 618
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3406
3406. حضرت جابر بن عبداللہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: ہم (ایک مرتبہ) رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ پیلو کا پھل چن رہے تھے تو آپ نے فرمایا: ”سیاہ سیاہ دانے تلاش کرو کیونکہ وہ اچھے اور عمدہ ہوتے ہیں۔“ لوگوں نے عرض کیا: آیا آپ نے بکریاں چرائی ہیں؟ آپ نے فرمایا: ”کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس نے بکریاں نہ چرائی ہوں۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3406]
حدیث حاشیہ: اس حدیث میں چونکہ سب پیغبروں کاذکر ہے تو ان میں حضرت موسیٰ بھی آگئے بلکہ نسائی کی روایت میں حضرت موسیٰ کا ذکر صراحت کےساتھ موجود ہے۔ بکریاں ہرپیغمبر نےاس لیے چرائی ہیں کہ ان کے چرانے کےبعد پھر آدمیوں کے چرانے کاکام ان کو سونپا جاتاہے۔ بعض نےکہا اس لیے کہ لوگ یہ سمجھ لیں کہ نبوت اور پیغمبر اللہ کی دین ہےجسے وہ اپنے ناتواں بندوں کودیتا ہے یعنی چرواہوں کو، دنیا کرے مغرور لوگ اس سے محروم رہتے ہیں۔ قال في الفتح و المناسب بقصص موسیٰ من جھة عموم قوله وھل من نبي إلا وقد رعا ھا فدخل فیه موسی ٰ
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 3406
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3406
3406. حضرت جابر بن عبداللہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: ہم (ایک مرتبہ) رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ پیلو کا پھل چن رہے تھے تو آپ نے فرمایا: ”سیاہ سیاہ دانے تلاش کرو کیونکہ وہ اچھے اور عمدہ ہوتے ہیں۔“ لوگوں نے عرض کیا: آیا آپ نے بکریاں چرائی ہیں؟ آپ نے فرمایا: ”کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس نے بکریاں نہ چرائی ہوں۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3406]
حدیث حاشیہ: 1۔ اس حدیث کی باب سے مناسبت اس طرح ہے کہ موسیٰ ؑ ان لوگوں میں داخل ہیں جنھوں نے بکریاں چرائی ہیں بلکہ نسائی کی روایت میں صراحت ہے کہ موسیٰ ؑ کو بکریاں چرانے کے دوران میں ہی نبوت عطا کی گئی۔ (السنن الکبری للنسائي: 396/6۔ طبع دارالکتب العلمیة، بیروت) اللہ تعالیٰ کا طریقہ یہ ہے کہ وہ دنیا داروں اور متکبرین کو نبوت نہیں دیتا بلکہ تواضع وانکسار اختیار کرنے والوں اور بکریاں چرانے والوں کو نبوت سے نوازتا ہے۔ 2۔ اس میں حکمت یہ ہے کہ منتشربکریوں کو جمع کر کے ایک نظم میں رکھنے سے امت کے مختلف افراد کو یکجا کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔ بہرحال تمام پیغمبروں کو بکریاں چرانے کا موقع فراہم کیا گیا تاکہ انھیں لوگوں کی نگہبانی کرنے کا طریقہ آجائے۔ (فتح الباري: 534/6)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 3406